فنکار کی فریاد فنکار کی اپنی زبانی

کھوار موسیقی کو اوجِ کمال تک پہنچانے والے مشہور موسیقار صدائے گلستان منصور علی شباب، فنکار کی فریاد بیان کرتے ہوئے  کہتا ہے کہ چترال میں ہمیشہ فنکار کے ساتھ  نا انصافی ہوتے آیا  ہے ۔  کوئی سرکاری اور حکومتی سرپرستی  نہ ہونے کی وجہ سے  فنکار کی وہ پذیرائی کبھی نہیں ہوتی  جو دوسرے علاقوں میں ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہاں بھی ویلج کونسل سے لے کر تحصیل کونسل  اور ڈسٹرکٹ کونسل تک اس مد میں خصوصی فنڈ موجود ہے  مگر یہ فنڈ کبھی فنکار کی بہبود کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح میں بھی کھو ثقافت کی نمائندگی کرنے والے فنکاروں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔

منصو ر علی شباب نے کہا کہ آج چترال کا فنکار حکومتی سرپرستی کا ہی رونا نہیں روتا بلکہ سینکڑوں این جی اوز  اس مد میں ہزاروں فنڈ لے کے آتے ہیں لیکن فنکار کو اس کی دمڑی بھی نہیں دیکھاتے ۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ  کئی این جی اوز تاجکستان،گلگت،افغانستان اور دوسرے ممالک  میں  ثقافت اور فنکاروں کے لیے قابل قدر کام کررہے ہیں۔خاص کر یہ این جی اوز ان ممالک میں  فنکاروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ قدیم لوک گیتوں  اور کہانیوں کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کام کرتے ہیں ۔ان کو مختلف حوالے سے ڈاکومنٹس کرکے   محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ  ترجمہ کرکے دوسری زبانوں کے جاننے والوں کے لیے بھی پیش کررہے ہیں ۔اس کے برعکس انہی این جی اوز کا چترال میں   کوئی خاص کام نظر نہیں آرہا ہے ۔حالانکہ چترال کی ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں ۔

موجود فنکار ان پرانے لوک گیتوں کو ان کی اصلی حالت میں محفوظ کرنے کی بدرجہ اتم صلاحیت رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے  ثقافت کی یہ نشانیاں معدومیت کاشکار ہیں۔  یہ این جی اوز بھی ان فنکاروں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر تےآرہے ہیں ۔حالانکہ ان اداروں کے کرتا دھرتا چترالی ہونے کے باجود اس قسم کا رویہ رکھنا ایک سوالیہ نشان ہے ۔

ثقافت پہ کام کرنے والے ان  این جی اوز کے سربراہان کا ثقافت سے نا  آشنائی ہی  اس طرح  کے  المیے کا سبب بن رہا ہے جس کی مثال  پرتگال میں  منعقدہ ڈائمنڈ جوبلی  پروگرامات میں چترالی منفرد موسیقی کی نمائندگی نہ ہونا بھی ہے ۔

منصور علی شباب نے ثقافت کے نام پر کام کرنے والے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایک واقعہ یوں بیان کیا  کہ ایک دفعہ اسلام آباد میں چترال اور گلگت بلتستان کے فنکاروں کا مشترکہ پروگرام منعقد ہو رہا تھا  ۔اس میں چترال اور گلگت کے سیاسی  نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔

گلگت کے وزیر اعلیٰ  نے اپنے فنکاروں کے ساتھ ساتھ چترال کے فنکاروں کے ساتھ بھی وقت گزارا ان کی حوصلہ افزائی کی ۔

مگر افسوس اس وقت ہوا جب ہمارے کچھ نمائندے  وعدہ کرنے کے باوجود اس پروگرام میں تشریف نہ لا سکے  اور اس  وقت ہمارے فنکاروں کی جو جگ ہنسائی ہوئی اس پر افسوس ہی کیا جاسکے گا۔ اس رویے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے قومی  اور سیاسی نمائندوں  کے دل میں ان فنکاروں کی کیا حیثیت ہے ۔

چترالی فنکاروں کی مالی طور پر کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے فنکار ما لی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے مختلف جگہوں میں جاب کرتے ہیں ان اداروں کے سربراہاں اگر ثقافت دوست ہو تو فنکار کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر فنکاروں کے لیے اس حوالے سے بھی کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔

منصور علی شباب  کھوار ثقافتی و ادبی تنظیموں کی   نئے وجود میں آنے والی مشترکہ تنظیم چترال لٹریری اینڈ کلچرل کونسل  کے قیام کو خوش آئند قرار د دیتے ہوئے کہا کہ اس طر ح کا مشترکہ پلیٹ فارم  جو کہ ذاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر کھو ثقافت و ادب کے لیے کام کرنے کے لیے  مخلص  ہو تو فنکار کے مسائل بھی انشا اللہ حل ہونگےاور حکومت و انتظامیہ کے ساتھ مل کے ادبی و ثقافتی سرگرمیاں منعقد کرنے سے  کھو ثقافت و ادب  ترقی کی منزلیں  آسانی سے طے کرے گا ۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مشترکہ تنظیم ادبی و ثقافتی تنظیمات کے درمیان اتحاد واتفاق  پیدا  کرنے کے ساتھ ساتھ  ادب و ثقافت کی ترویج میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email