کورونا وائرس کے روک تھام کے لیے چترال میں کوئی انتظام نہیں،ایم این اے

 چترال (زیل نمائندہ )چترال کی ضلع انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔  یہاںکورونا  وائرس کے روک تھام کے لیے محکمہ صحت کے پاس علاج کی سہولت ہے نہ اس کی تشحیص کے لیے کوئی لیبارٹری یا مشنری موجود ہے۔یہ بات چترال سے قومی اسمبلی کے ممبر مولانا عبدالاکبر چترالی نے چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے چترال بھر کے ہسپتالوں میں کوئی بھی مشین موجود نہیں جس سے اس کی تشخیص ہوسکے۔ جب تک منتحب نمائندوں، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر لوئڑ چترال نوید احمد  کے فیصلوں  پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ من مانی کرتے ہیں اور منتحب نمائندوں کو  نہ تو اعتماد میں لیتے ہیں اور نہ ان سے مشاورت کرتے ہیں۔ ایم این اے نے کہا کہ کورونا کی وبا پاکستان میں ایک ماہ  سے بھی زیادہ عرصہ  پہلے آچکی ہے اور ضلعی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے اپنے ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے عملہ کو ٹریننگ دیکر  ان کو وہ محفوظ لباس فراہم کرتا جو کورونا وائرس کے مریضوں کا معائنہ کرتے ہوئے ان کی جان بھی محفوظ رہے مگر ابھی تک ان کے پاس کوئی تیاری یا انتظام نہیں ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال  میں آئسولیشن وارڈ برائے نام تو بنایا گیا ہے مگر وہاں وینٹی لیٹر چار سالوں سے خراب ہے اور اسے کسی چلایا نہیں ہے  اس کے علاہ کورونا وائرس کے مشکوک مریضوں کی معائنہ کے لیے  سکریننگ مشین تک چترال ہسپتال میں یا قرنطینہ مرکز میں موجود نہیں ہے نہ یہاں لیبارٹری کی کوئی  سہولت دستیاب ہے جس میں اس وبا ء کا ٹیسٹ کرکے پتہ چل سکے کہ مریض میں یہ وائرس ہے یا نہیں۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اپر چترال کے لیے  جو فنڈ کا اعلان کیا گیا ہے وہ نہایت کم ہے اسے چار کروڑ تک بڑھایا جائے اور لوئر چترال کے لیے  پانچ کروڑ روپے کا فنڈ دیا جائے مگر اس فنڈ کو صحیح معنوں میں ایمانداری خرچ کی جائے تاکہ اس میں کسی قسم کا بدعنوانی نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا چترالی نے صوبائی حکومت پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے تین سرکاری ہسپتالوں کو ایک غیر سرکاری ادارے کو دیا ہے جس کے لیے  وہ سالانہ کروڑوں روپے کا فنڈ بھی دیتی ہے مگر وہاں کے لوگ ہمیشہ شکایت کرتے آرہے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاتی اور ان کو بہت مہنگا علاج فراہم کیا  جاتا ہے۔

ایم این اے  چترالی نے خبردار کیا کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی اس قسم غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ مشکلات کا شکار ہوگئے تو ان کے بہت برے نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کے روک تھام کے لیے مکمل طور پر حکومت اور انتظامیہ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ انتظامیہ ہمیں اعتماد میں لے۔

اس کےمحکمہ صحت چترال کا موقف جاننے اور آئسولیشن وارڈ کی صورت حال معلوم کرنے کے لیے  ہمارے نمائندے نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال  کے میڈیکل سپرانڈنٹ ڈاکٹرمحمد  شمیم خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھاکہ آئسولیشن وارڈ میں جو چار عدد  وینٹی لیٹرز نصب ہیں وہ چار سالوں سے کام نہیں کرتے  اور نہ ہی ان کے پاس کورونا وائرس کی سکریننگ کے لیے  مشین یا لیبارٹری موجود ہے۔ انہوں نے عوام الناس سے اپیل کی کہ وہ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہیں اور کسی بھی شک کی بنیاد پر مریض کو چودہ دنوں تک علیحدگی میں رکھے طبیعت زیادہ خراب ہو تو ہسپتال سے رجوع کرے اور بلا وجہ ہسپتال نہ آئیں۔

Print Friendly, PDF & Email