گرم چشمہ روڈ میں جگہ جگہ تالاب، محکمے کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت

چترال (گل حماد فاروقی ) چیو پل سے لیکر گرم چشمہ تک کا سڑک کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس سڑک کے بیچ میں نہ صرف بڑے بڑے کھڈے ہیں بلکہ بارش کے دنوں اور عام دنوں میں پانی جمع ہوکر تالاب کی صورت اختیار کر رہی ہے۔   چیو پل کے  قریب محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے سڑک کے کنارےخطیر رقم سے  کھدائی کرکے نالہ بنایا اور اسے کنکریٹ سے پختہ کروانا تھا مگر جب وہ ایک ماہ تک پختہ نہیں ہوسکا تو ایک بار پھر ٹھیکیدار کو پیسے دیکر اس نالے کو دوبارہ بند کرایا  اور کھیل ختم پیسہ ہضم والی صورت حال پیدا ہوئی۔ جب اس بارے  محکمے کے اہلکاروں سے پوچھا توجواب ملاکہ "یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ہوتا ہے”۔

اسی سڑک پر دن بھر قریبی نالے سے پانی بہتا ہے اور یہاں بغیر بارش کے ہر وقت سیلاب کا منظر پیش کرتا ہے۔ خاص کر سینگور اور بلچ کے مقام پر آئے روز  ندی سے پانی نکل کر سڑک پر بہتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس پانی سے آنے جانے والے لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ کروڑوں روپے کی  لاگت سے بننے والی سڑک بھی تباہ ہورہی ہے۔ 

چترال یونیورسٹی، پولیس لائن/ ڈی پی او آفس اور خاص کر  ائیرپورٹ  اس روٹ پر واقع ہے اور یہ سابقہ ایم پی اے سلیم خان کے آبائی گاؤں کا بھی مین روڈ ہے۔  اس جگہ سڑک پر اتنا پانی کھڑا ہوتا ہے کہ یہاں سے گزرنا بھی نہایت مشکل ہوتا ہے۔  اسی راستے سے گزرنے والا ایک شہری سلیم عباس کا کہنا ہے کہ  یہاں بغیر بارش کے پانی کھڑا ہونا عجیب بات ہے اور محکمے کی المیہ یہ ہے کہ یہاں محکمے کا کوئی اہلکار بھی نظر نہیں آتا وہ سب گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ نفس علی جو ایک سماجی کارکن ہے اور ڈاکٹر کالونی میں رہتا ہے ان کا کہنا ہے یہاں ہر وقت سڑک پر پانی بہتا ہے جس سے لوگوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر سی اینڈ ڈبلیو محکمے کا کائی نام نظر نہیں آتا اگر سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ ہوتا تو اس سڑک کی یہ حالت نہ ہوتی ۔ شیر گل خان جنرل کونسلر شغور  بھی اسی راستے سے روز گزرتا ہے  ان کا کہنا ہے کہ پورے گرم چشمے کی سڑک کی حالت بد  سے بدترین ہے اور روڈ کولی اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے اہلکار گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہمیں امید تھا کہ پچھلے حکومتوں سے یہ حکومت بہتر ہوتا مگر تبدیلی سرکار نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اگر اس سڑک پر بیمار کو ہسپتال پہنچانا ہو تو وہ راستے ہی میں دم توڑدیتا ہے۔ جنرل کونسلر نے مزید بتایا کہ یہ تو سی اینڈ ڈبلیو محکمے کا روڈ ہے اس سے آگے کریم آباد اور سوسوم کا سڑک تو لاوارث ہے اور اس پر آئے روز حادثات پیش آتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔

ان متاثرین نے تبدیلی سرکار سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس محکمے کے اہلکار کوئی گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں اور سڑک کی دیکھ بال نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے جب محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے  متعلقہ افسران سے ان کا موقف لینے کی عرض سے ان کے دفتر گئے تو حسب معمول ان میں کوئی  بھی افسر یا ذمہ دار شحص دفتر میں موجود نہیں تھا بلکہ وہاں موجود ایک ٹھیکیدار نے تو یہاں تک کہ کر انکشاف کیا کہ یہاں کے افسران تو زیادہ تر پشاور میں اپنی ذاتی کاموں کے لیے  چترال سے باہر رہتے ہیں اور دفتر میں بہت کم آتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email