چترال سے  ٹیوشن کے لیے پشاور آنے والے طلباء،،ایک لمحہ فکریہ

پشاور(افگن رضا) بدھ کی شام پشاور یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر1 کے گراؤنڈ میں بہت سارے لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سارے لڑکے ٹیوشن پڑھنے پشاور آئے ہوئے ہیں لیکن ان کا زیادہ تر وقت اس گراؤنڈ فٹ بال کھیلتے ہوئے گزرجاتا ہے ۔یہ نوجوان پشاور میں کسی دوست کے ساتھ رہتےہیں اور اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں۔بےشک کھیل  کود جسمانی صحت کے لیے نہایت ضروروی ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ان میں سےزیادہ تر نوجوان کسی بھی ٹیوشن سنٹر کےدروازے تک بھی نہیں گئے ہیں۔یہ تمام سٹوڈنٹ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان کو  جس کام کے لیے انکے والدین نے اپنی جمع پونجی دے کے پشاور بھیجے ہیں ان بے چارے والدین کی آنکھوں میں ان کے لیے کیا کیا سپنے ہونگے۔ میں یہ باتیں اپنے دوستوں سے کرتا ہوں تو یہ جوان ملتا ہےکہ بھئ کس دنیا میں ہو ؟ دنیا بدل چکی ہیں ۔انسان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ،معاشرے میں جو کچھ برا لگ رہا ہے ،اس سے خود کو انجان رکھنے میں ہی عافیت ہے ،اور ہو سکے تو راستہ بدل ڈالے۔مجھے ان تمام جوابات سے انکاری نہیں ،میں جانتا ہوں کہ،دنیا ماڈرنائزیشن کی لپیٹ میں ہیں،اب دوسروں کے درد اپنا سمجھنا پاگل پنی ہے۔مجھے ان بیچارے والدین پر  ترس آتا ہے جنہوں نے  اپنی کل جمع پونجی دے کر اسکو پشاور میں ٹیوشن پڑھنے بھیجے۔ ان والدین سے گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے بچوں کو اپنے علاقے کے اچھے اساتذۂ کرام سے ٹیوشن پڑھائیں۔انکو پشاور نہ بھیجیں  اور اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی کوشش کریں ۔ٹیوشن کے نام پر اپنا سرمایہ اور اپنے بچوں کی قیمتی وقت ضائع کرنے سے پہلے زرا سوچئیے !!!!!

 

Print Friendly, PDF & Email