چترال میں ترقیاتی کام ٹھیکہ داروں کے غیرمعیاری کام کی نذر

چترال(گل حماد فاروقی) چترال گول نالے پر گول دور کے لکڑی کا پل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا تھا جسے کئی سال بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا مگر اس نالے کے کنارے ڈی سی آفس روڈ پر چلڈرن اینڈ ویمن ہسپتال کی جانب حفاظتی دیوار کی تعمیر کی جارہی ہے جو اتوار کے روز بھی یہ تعمیراتی کام اسلئے جاری تھا تاکہ ٹھیکدار اس میں ڈنڈا ماری کرے اور چھٹی کے دن ویسے بھی دفاتر بند ہوتے ہیں۔ اس حفاظتی دیوار میں عام طور پر سیمنٹ کا کنکریٹ ڈالا جاتا ہے مگر اس میں ٹھیکدار نے بڑے بڑے پتھر رکھ کر اس کے اوپر تھوڑا سا سیمنٹ والا مسالہ ڈالتے اور اسے بس صرف چھپاتے۔ جب کام کرنے والے مزدوروں سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ ٹھیکہ دار نے ایسا کرنے کا بتایا ہے مگر ٹھیکہ دار خود موجود نہیں تھا جب ان مزدوروں سے پوچھا گیا کہ کوئی سرکاری افسر، انجنئیر یا محکمہ کی جانب سے ا س کام کی نگرانی کرنے یا چیکنگ کیلئے آیا ہے تو ظاہر ہے جواب نفی میں تھا۔

ہمارے نمائندے نے فوری طور پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایگزیکٹیو انجنیر مقبول اعظم سے فون پر رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ان کے محکمے کا نہیں ہے پھر ہمارے نمائندے نے محکمہ ایریگیشن کے ایگزکیٹیو انجنیر سے حمید اللہ کے پاس جاکر پوچھا تو انہوں نے بھی جواب نفی میں دیا۔ بعد میں تحصیل میونسپل انتظامیہ سے رابطہ کرکے اس کام کے بارے میں پوچھا ٹی ایم او خود دفتر میں موجود نہیں تھے مگر اس کے عملے نے بھی اس کام کی ملکیت سے انکار کیا۔
ہمارے نمائندے نے بعد میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر منہاس الدین سے رابطہ کرکے ان کے نوٹس میں لایا کہ ان کے دفتر کے نیچے چترال گول نالہ کے کنارے جو حفاظتی دیوار تعمیر ہورہی ہے اس میں بڑے بڑے پتھر ڈالے جارہے ہیں اور ہم نے وفاقی محکمہ کے ایک سینئر انجنئیر سے جب رابطہ کرکے پوچھا تو انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس حفاظتی دیوار میں سراسر بڑے بڑے پتھر ڈالنا یوں سمجھوں کہ یہ کفر ہے۔
اس شکایت پر اے ڈی سی منہاس الدین  نے فوری ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ ٹھیکہ دار کو اپنے دفتر طلب کیا اور اس بابت انکوائیری کا بھی حکم دیا تاکہ انجنئیر جاکر اس کام کا پورا جائزہ لے انہوں نے فی الحال اس ناقص کام کوروک لیا۔
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر انصافی سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک تو اس ٹھنڈے موسم میں جہاں درجہ حرارت منفی تین سے بھی نیچے گرتا ہے اس میں سیمنٹ یا تارکول کا کام ویسے بھی ناکام ہوتا ہے اسے کیوں کرنے دیا جاتا ہے ۔دوسرا ان ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرنا کیوں نہیں کی جاتی اور اگر کسی انجنیر یا اہلکار کی غفلت نظر آئے تو ان کو فوری نوکری سے ہٹاکر ان کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ لوگ قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کے مصداق پر اتنی بے دردی سے نہ لوٹے۔
واضح رہے کہ ڈی سی آفس روڈ پر ایک نجی ہوٹل کے سامنے سڑک کے کنارے 75 لاکھ روپے کی لاگت سے حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی تھی جس کی نشاندہی ہمارے نمائندے نے اپنے ایک رپورٹ میں کیا تھا اور بعد میں سابق ڈی سی اسامہ وڑائچ شہید نے اسے تجاوزات قرار دیکر ہٹایا بھی تھا ۔اسی طرح اتالیق پل کے قریب قبضہ مافیا کے خلاف میڈیا میں خبر چلایا تھا جسے واہ گزار کرکے اسی جگہہ بھی پبلک لیٹرین تعمیر ہورہی ہے جس کی تجویز بھی ہمارے نمائندے نے دیا تھا۔

Print Friendly, PDF & Email