کشیدگی کی صورت حال میں علمائے کرام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا کرداربھی انتہائی مثبت رہا۔

چترال( نمائندہ زیل) چترال کے انتہائی کشیدہ صورت حال میں علمائے کرام خاص کر ڈسٹرکٹ خطیب کا کردار انتہائی دانشمندانہ رہا۔ یہ بات سوشل میڈیا میں مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کی۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چترال کے علماء کی دانشمندی کو کشیدہ صورت حال پر قابو پانے بڑی وجہ قرار دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں مسالک کے پیرو کار، ضلعی حکومت کے نمائندے ، ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ اور چترال پولیس نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز سے اپنا کردار ادا کیا ۔ جس کی وجہ سے چترال کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی جو مذموم کوشش کی جارہی تھی اس کو ناکام بنا یا گیا۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے فیس بک میں اپنے پوسٹوں کے ذریعے فیس بک لکھاریوں نے سوشل میڈیا میں جذباتی لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اور ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑے ویب سائیڈ نے ہمارے علماء کے لردار کو سراہتے ہوئے پوسٹ کیے۔









۔۔۔۔۔۔۔پاگل؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔
پاگلوں کے عام قسم کے بارے میں مشاہدہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو گالیاں دیتے ہیں اپنے کپڑے اتار کر ننگے ہوجاتے ہیں۔لوگوں کو پتھر مارتے ہیں ۔ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں کبھی ہنستے اور ہنستے ہی چلے جاتے ہیں اور بعض پاگل تو وہ بھی ہوتے ہیں جو سردی گرمی اور درد وغیرہ کے احساس سے بھی عاری ہوتے ہیں ۔ ایسے پاگل ازروئے شریعت مرفوع القلم ہیں ۔
لیکن شاہی مسجد چترال میں بھری مسجد میں کھڑے ہوکر نبوت کا دعوی کرنے والا ملعون بھی یقینا پاگل ہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حقیقی پاگل یہ ہی ہے کیونکہ یہ اسوس عنسی ۔ مسیلمہ کذاب اور غلام احمد قادیانی جیسے کئی دیگر ملعونوں کی نئی شکل ہے ۔ لیکن اول الذکر پاگلوں اور اس پاگل میں فرق یہ ہے کہ وہ معذور ہونے کی وجہ سے مرفوع القلم ہیں اور یہ مردود ہونے کی وجہ سے لائق گردن زنی ہے۔ اول الذکر پاگلوں کا علاج پیار محبت اور ان کے ساتھ ہمدردی ہے اور اس پاگل کا علاج اس کے سر کو تن سے جدا کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹھیرئیے یہ یہ سرتن سے جدا کرنے کا کام عوام کا نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کا کام اور حاکم وقت کی ذمہ داری ہے اب جبکہ مذکورہ شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان صاحب کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کی بدولت مجرم قانون کے حوالے ہوچکا ہے تو جذبات میں آکر قانون کو ہاتھ میں لینا اور چترال جیسے مثالی پرامن علاقے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنا بجائے خود بہت بڑا جرم ہے ۔ لہذا مقامی علمائے کرام کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو پرامن رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ اور قانون کی بالا دستی قائم ہونے کا انتظار کریں ۔ اگر خدا نخواستہ اس حساس مسئلے کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ریاست اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی برتتی ہے تو پھر لوگ اپنا قانونی حق استعما ل کرنے میں حق بجانب ہونگے ۔ تب تک قانون کو ہاتھ میں لینا قانون شکنی ہوگی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعیدالرحمن ثا قب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے