وادی بروغل کے مکین اب بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم

بروغل (زیل نمائندہ) چترال کے دورافتادہ اور پسماندہ  وادی بروغل جو چترال کے نہایت  شمال مغرب میں واقع ڈیڑھ سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔اس وادی کے مکین اس جدید دور میں بھی بنیادی انسانی ضروریات  اور سہولیات سے محروم ہیں۔  یہاں کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ بروغل میں  سڑک ہے نہ بجلی،  سکول ہے  نہ ہسپتال اور لوگ موبائل  اور ٹیلیفون کی جھنجٹ سے بھی بے غم ہیں۔ یہاں پر جھونپڑی نما مکانات ہوتے ہیں جو بمشکل  سولہ ضرب بارہ فٹ پر محیط ہوتے ہے جس میں تندور، باورچی خانہ، ڈرائینگ روم، مہمان خانہ اور چولہا موجود ہوتے ہیں۔ وادی بروغل سطح سمندر سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے  یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی درخت نہیں اگتا اور آکسیجن بھی کم ہوتا ہے۔ یہاں اکثر اکتوبر میں بھی برف باری ہوتی ہے۔ ہمارے نمائندے نے وادی بروغل کے مختلف دیہات کا پیدل سفرکرکے دورہ کیا اور  لوگوں  کے گھر گھر جاکر ان سے  بات چیت کرکے ان کی مشکلات بارے میں  پوچھا جسے ہم قارئین کے نظر کررہے ہیں۔ 

یہاں اب بھی گندم نہیں پکا ہے اور بہت کم جگہہ میں گندم کا فصل پک چکا ہے  گند م کے علاوہ  اس سے ملتا جلتا ایک اور فصل جسے ‘جو’ کہتے ہیں اسے لوگ اپنے مال مویشیوں کے لیے  جمع کرکے بطور سٹاک رکھتے ہیں  اور جب یہاں چار فٹ سے زیادہ برف باری ہوتی ہے تو ان کے مال مویشی گھروں کے اندر ہی رہتے ہیں اس وقت یہ خشک گھاس اور حوراک اپنے جانوروں کو کھلاتے ہیں۔ 

بروغل کے لوگ مال برداری اور سفر کے لیے  زیادہ تر گھوڑا، یاک (خوش گاؤ) اور گدھا استعما ل کرتے ہیں۔ ضعیف العمر لوگ بالخصوص خواتین میں بعض ایسے خواتین بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک ٹاؤن چترال  نہیں دیکھے ہیں۔ یہ لوگ مال مویشی پالتے ہیں ان کے  دودھ سے بنے ہوئے پنیر، پینک، کھرت، دیسی گھی اور دیگر چیزیں فروخت کرکے گزر بسر کررہے ہیں۔ یہ لوگ واخی زبان بولتے  ہیں اور اکثر لوگ چترالی یعنی کھوار زبان بھی نہیں سمجھتے۔یہاں اکثر اکتوبر میں برف باری شروع ہوتی ہے جو مارچ اپریل تک جاری رہتا ہے۔ غربت کا اندازہ ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر لوگ لکڑی بھی نہیں جلاسکتے ہیں کیونکہ چترال بازار سے لکڑی لانا بہت مہنگا پڑتا ہے مگر قدرت نے ان لوگوں کے لیے متبادل ایندھن کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ یہاں ایک خاص گھاس (چم )ہوتا ہے جسے جڑ اور مٹی سمیت بلچے کے ذریعے زمین سے اکھاڑ کر خشک کرتے ہیں اور اسے سردیوں میں جلاتے ہیں مگر اس سے بہت سخت بدبو بھی نکلتی ہے۔یہاں کے لوگ غربت کے باوجود نہایت مہمان نواز ہیں اور آنے والے سیاحوں، مہمانوں اور مسافروں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔  وادی بروغل  کے لوگ وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی پاکستانی ہیں او ر کم از کم  ان کے لیے سڑک کا بندوبست کیا جائے او ر ساتھ ہی ان کے بچوں کے لیے  سکول اور کالج، ہسپتال بھی کھولا جائے  تاکہ یہاں کے لوگ بھی دیگر شہریوں کی طرح زندگی گزاریں۔

 

 

 

 

Print Friendly, PDF & Email