بمبوریت میں ہوٹل کی تعمیر روکنے کے خلاف ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر

چترال (گل حماد فاروقی) چترال کے وادی کالاش میں زیر تعمیر ہوٹل کی بندش پر شہری نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر محمد عدنان جن کا تعلق لاہور سے ہے اور بیرون ملک بحرین میں بطور ڈاکٹر فرائض انجام دیتا ہے۔ ڈاکٹر عدنان بھٹہ نے بمبوریت کے پہلواناندہ سے شادی کی ہے اور ان کے سسر نے انہیں زمین بھی ہبہ کی ہے جس کے بعد اس کا شناحتی کارڈ بھی چترال کا بن چکا ہے اور اب یہا ں مستقل رہائش پذیر ہے۔
ڈاکٹر عدنان نے کراکاڑ گاؤں میں آبادی سے کافی دور کھیتوں میں زمین خرید کر وہاں ایک معیاری ہوٹل تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر عدنان نے بیرون ملک سے فون پر باتیں کرتے ہوئے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ عمران خان نے بھی سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کرے اور صوبائی حکومت بھی سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں کپتان کے پکار پر اس نے لبیک کہتے ہوئے بمبوریت میں ایک معیاری ہوٹل کی تعمیر شروع کی کیونکہ اس وادی میں ایک سرکاری ہوٹل کے علاوہ کوئی اور ایسا معیاری ہوٹل نہیں ہے جہاں اہم شحصیات ٹھرسکے اسلئے اس نے اس وادی کو فروغ دینے کیلئے پچیس کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنا شروع کی اور ایک اعلےٰ معیار کا ہوٹل بنانا چاہا تاکہ ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں ٹھر سکے اور واپس جانے پر مجبور نہ ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے ہوٹل کا کام پچھلے سال شروع ہوا تھا اس وقت نہ تو کسی نے اسے روکا نہ این او سی کا مطالبہ کیا اور پورے وادی میں کوئی بورڈ بھی نہیں لگا ہے کہ یہاں تعمیراتی کام بند ہے جس طرح سول ایوی ایشن والوں نے ائیر پورٹ کے احاطے میں باقاعدہ بورڈ لگایا ہے کہ رن وے سے سات سو فٹ کے فاصلے پر کوئی تعمیراتی کام بند ہے مگر اس کے باوجود بعض بااثر افراد نے ر ن وے کے قریب بھی مکا تعمیر کی ہے جبکہ میرے ہوٹل پر اب تک اسی فی صد کام ہوچکا ہے اور جب میرا ہوٹل تعمیر کے آحری مرحلے میں تھا تو ڈایریکٹر آثار قدیمہ نے ڈپٹی کمشنر چترال کو لکھا کہ وادی کیلاش میں جدید طرز کے تعمیرات بند کرے۔ اس کے بعد بمبوریت کے پولیس نے ڈی سی چترال کے حکم پر بار بار آکر میرا کام روک دیا میرے مزدور، کاریگر، مستری کئی ماہ تک بے روزگار بیٹھے رہے اور ان کو خرچہ بھی مجھے دینا پڑا کیونکہ اسی امید پر وہ بیٹھے تھے کہ این او سی مل جائے گی اور وہ کام دوبارہ شروع کریں گے۔
ڈاکٹر عدنان نے مزید بتایا کہ اس نے ڈپٹی کمشنر چترال کے وساطت سے ڈائریکٹر آثار قدیمہ کو NOC کیلئے باقاعدہ درخواست بھی دی اور اس کے ساتھ بار بار رابطہ بھی کیا جس پر وہ ہر بار وعدہ کرتا رہا کہ وہ این او سی جاری کرے گا مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس نے این او سی نہیں دیا جس پر اسے مجبوراً عدالت جانا پڑا۔
ڈاکٹر عدنان کا کہنا ہے کہ اس کا ہوٹل کیلاش آبادی سے کافی دور کھیتوں میں زیر تعمیر ہے جس سے کیلاش ثقافت کو کوئی حطرہ یا نقصان کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسی وادی میں کیلاش کے مقدس جگہہ کے سامنے ہوٹل بن رہا ہے مگر اس سے کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ وہ لوگ با اثر ہیں اور مجھے بلا وجہ تنگ کیا جارہاہے اس کے علاوہ بمبوریت میں تھانہ بھی تعمیر ہورہا ہے مگر میرے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے کہ این او سی لاؤ ۔
چترال کے وادی تریچ سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان محب اللہ تریچوی کے وساطت سے پشاور ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عبدالصمد خان، ڈپٹی کمشنر چترال اور چیف سیکرٹری خیبر پحتون خواہ کو فریق بناتے ہوئے رٹ پیٹیشن دائیر کیا گیا جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے فر
یقین کو 21 فروری کو عدالت میں طلب کیا ہے۔
واضح رہے ڈاکٹر عدنان پیشے کے لحاظ سے معالج ہے اور جب بھی چترال پر قدرتی آفت کی صورت میں کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ یہاں فری میڈیکل کیمپ لگا کر اپنے جیب خرچ سے مریضوں میں مفت ادویات بھی تقسیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایون پل اور بموریت سڑک کی مرمت پر بھی اپنے جیب سے لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں اور ایک سماجی کارکن اور مخٰیر بھی ہے جو علاقے کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتا رہتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email