ریشن سیلاب متاثرین ابھی تک حکومتی امداد کے منتظر ہیں

چترال (زیل نمائندہ) 26اگست کو ریشن میں تباہ کن سیلاب نے اس علاقے کا نقشہ بدل ڈالا۔سیلاب کی وجہ سے مرکزی شاہراہ پر تعمیر شدہ کنکریٹ پُل جو حال ہی میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہوا تھا ایک ہی ریلے میں بہہ گیا ہے جس کی وجہ سے ضلع اپر چترال کا بشمول چترال کے ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔
مقامی رضاکاروں نے نالے پر عارضی طور پر لکڑی رکھ کر رسی کی مدد سے لوگوں کو نالہ عبور کرانے کا بندوبست کر لیا ہے۔

آبنوشی کی سکیم ختم ہونے سے پینے کی پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ چند مخیر حضرات ان متاثرین میں مفت کھانابھی تقسیم کررہے ہیں اور چترال سکاوئٹس کے ٹینکر میں متاثرہ لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
صوبائی محکمہPEDO کی 200 کے وی پن بجلی گھر بھی سیلاب کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ تاریکی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ڈپٹی کمشنر اپر چترال شاہ سعود نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے مگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ابھی تک کوئی مدد نہیں ہوئی ہے۔
بعض نمائندوں نے اس پُل کےغیر معیاری ہونے پر بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ریشن پل ٹوٹنے کی وجہ سے کثیر تعداد میں سیاح بھی علاقے میں پھنس چکے ہیں ۔

سیلاب نے جامعہ مسجد ریشن کو بھی نہیں بحشا اور اسے بھی ملیا میٹ کرڈالا جہاں سے رضاکار ٹریکٹر کے ذریعے ملبہ نکال رہے ہیں۔

متاثرہ لوگ حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خوبصورت علاقے کو بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے ریشن گول نالے کے دونوں جانب مضبوط حفاظتی پشتے بنائے جائیں تاکہ یہ لوگ محفوظ رہ کر سکھ کا سانس لے سکیں۔

یہ متاثرین اس علاقے میں تمام تباہ شدہ منصوبوں کا جلد از جلد دوبارہ تعمیر اور بحال کرنے اور علاقے کا رابطہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email