مولانگاہ نگاہ کی پہلی برسی چترال میں منائی گئی

چترال (زیل نمائندہ) شاعر، ادیب،  ماہرتعلیم،  مترجم، مصنف  اور سابق پرنسپل مولانگاہ نگاہ کی پہلی  برسی کے موقع پر کھوار اہل قلم کے زیر اہتمام ایک تقریبب گورنمنٹ سنٹینل ماڈل سکول چترال کے ہال میں منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر مقررین نے نگاہ مرحوم کی ادبی اور ثقافتی میدان میں کارہائے نمایاں کو ادب،ثقافت  اور شاعری کے لیے ایک اثاثہ قرار دیا اورشاعری میں مزاح کو خوبصورت موضوع بنانے پرانہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اپنے خطاب میں فرید احمد رضا نے کہا کہ نگاہ مرحوم کی طرح  شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور نگاہ کی وفات کے بعد کھوار ادب میں جو خلا پید اہوا ہے اس کو پر کرنے کے لیے عرصہ  لگے گا۔  صفی اللہ آصفی نے کہا کہ نگاہ مرحوم کے تخلیقی کاموں کو کتابی صورت دے کر پیش کرنا اہل قلم کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں کافی کام کرنے  کی ضرورت ہے ۔ نگاہ مرحوم کے فرزند ارجمند محبوب الحق حقی نے والد کے ساتھ ۴۶ سال رفاقت کی یادگارلمحات کوبیان کرنے کے ساتھ ساتھ والدکی طرف سے دی گئی  تربیت کو گران قدر قرار دیا۔  عنایت اللہ اسیر نے نگاہ مرحوم کےادبی اور شعری کاموں کو کھوار ادب اور تحقیق کے لیے قابل قدر قرار دیا اور نگاہ مرحوم کی تخلیقی خزانوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔  طاہرالدین شادان نے عقیدت کے چند اشعار مرثیہ کی صورت میں پیش کیا جس کے بعد تقریب کے مہمان خصوصی اسسٹنٹ کمشنر چترال ہیڈکوارٹرزعبدالولی خان نےاپنے خطاب میں  کہا کہ مرحوم نے کھوار ادب کے ساتھ فارسی اور اردو ادب میں نمایاں کام کیا ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے  گا۔  انہوں نے کہا کہ شاعر ادیب کو خراج تحسین پیش کرنے کا مقصد ان کی تخلیقات سے فائدہ اٹھاکر آگے بڑھنا ہے اور شاعرو ادیب کو معاشرے میں ان کا مقام دینا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ضلعی انتظامیہ آنے والے وقتوں میں اس طرح کے ادبی اور ثقافتی کاموں کے لیے  چترال کی ادبی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ان کی مشاورت کو اہمیت دی جائے گی۔ تقریب کے صدر محفل کھوار اہل قلم کے سرپرست اعلیٰ محمد کوثر ایڈوکیٹ اپنے صدارتی خطبے میں مولانگاہ نگاہ کی ادبی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا اور تقریب کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے مولانگاہ نگاہ گزشتہ سال ۵ جنوری کو قلیل علالت کے بعدداغ مفارقت دے گیے تھے۔ مرحوم یکم جنوری ۱۹۴۹ کو اپر چترال کے تریچ  کے زوندرانگرام گاؤں میں آنکھ کھولی ۔  ابتدائی تعلیم آبائی علاقے  سے حاصل کرنے کے بعد تورکھو،مستوج اور وریجون کے مڈل سکولوں میں پڑھ کر اسٹیٹ ہائی سکول چترال سے ۱۹۶۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے محکمہ تعلیم میں جے وی پوسٹ پر بھرتی ہوکر۲۰۰۶ء میں بحیثیت پرنسپل ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ کھوار شاعری میں ان کا شعری مجموعہ ‘نقظہ نگاہ’ منطر عام پر آیا ہے  اور سات تک شعری مجموعے زیر طبع ہیں۔ نثرمیں ان کے مقالے ، تحقیقی مضامین،آب بیتی اورثقافت پر جامع تحقیق بھی مرحلہ وار چھپائی کے مرحلوں سے گزریں گے۔  مزاحیہ نظم گوئی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مولانگاہ نگاہ کا نمایاں کام باباسیر کے فارسی دیوان کو اردو میں ترجمہ  کرنا ہے۔ یہ کام نگاہ مرحوم کے لیے مشکل ضرورتھا لیکن ناممکن کبھی  نہیں تھا۔ دس سال لگاتار محنت کرکے دیوان کو اردو میں بہترین انداز میں اردو میں  ترجمہ کرکے قومی ادب میں بھی اپنا حصہ ڈالا ۔  اللہ نگاہ مرحوم کو غریق رحمت کرے ۔ آمین !

Print Friendly, PDF & Email