کراچی سےگم شدہ چترالی نوجوان کااپنے عزیزو اقارب کی تلاش

چترال (زیل نمائندہ) دس سال پہلے چترال سے کراچی پہنچنےکے بعد گم شدہ  بچہ کوئٹہ سے ہوتا ہوا چترال پہنچ گیا ہے اور اپنے عزیزو اقارب سے ملنے کےلیے بے تاب ہے۔ تفصیلات کے مطابق مبارک شاہ نامی شخص نے جو اپنے گاؤں میں پرچون کا دوکاندار تھادس سال پہلے  اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو ایک مولانا صاحب کے ساتھ دینی تعلیم کے لیے کراچی بھیجا- کراچی لےجانے والا مولانا وہاں کسی مدرسے میں معلم تھا اور 2/3سال میں ایک بار گھر آتا تھا۔چترال میں وہ مولانا اور دوکاندار مبارک شاہ پڑوسی اور رشتہ دار تھے۔اس آٹھ سالہ بچے کا نام اعجاز تھا جو اپنے ماں باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ اس کی دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام ارشاد تھا۔ اس کا ایک چچاعمران FC چترال میں ملازم تھا اور ڈوک عالم میں ڈیوٹی پر ہوتا تھا۔ کراچی میں مدرسے کے ماحول اور سختیوں سے تنگ آکر اعجاز وہاں سے بھاگ نکلا اور کچھ عرصہ بعد ایدھی والوں کے ہاتھ لگ گیا تو تین سال ایدھی سنٹر میں رہا۔تین سال بعد ایدھی سنٹر میں کسی ملازم کی مارپیٹ سے تنگ آکر دس دوسرے لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر وہ بسوں کے اڈے میں چلا گیا مگر تعاقب کرکے ایدھی والوں نے باقی لڑکوں کو تو پکڑ لیا مگر چترالی اعجاز کوئٹہ جانے والی ایک بس کے سیٹوں تلے چھپ کر بھاگ نکلنےمیں کامیاب ہوا اور پھر اس بس والوں نے اسے بیٹا و ملازم بنا کر چند سال کوئٹہ میں رکھا۔اعجاز کو ان کا ماحول پسند نہ آیا تو انہیں چھوڑ کرکوئٹہ کی ایک بیکری میں دو سال ملازمت کی۔اس دوران چند ایک بلوچ نوجوانوں سے اس کی واقفیت بن گئی تو انہوں نے اس کے بارے میں ایکسپریس اخبار اور فیس بک پر خبر پوسٹ کیا تاکہ اس کے رشتہ داروں سے کوئی رابطہ بن سکے۔

کرنل (ر)شہزادہ افتخارالملک کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے ان لوگوں سے اس سلسلے میں رابطہ ہوالیکن  بیکری والے اپنے اس ملازم کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ بہرحال چند ایک فوجی کوششوں سے اسے ان لوگوں سے چھڑا کر اسلام آباد  سے آج (۱۷ جولائی)  کو چترال پہنچا۔
آج اس نوجوان کو لیکر کرنل (ر) افتخارالملک نے دروش اور چترال ٹاون میں کئی جگہوں کے دورے کیے مگر وہ اپنے گاؤں اورمحلے کی واضع شناخت نہیں کر سکا۔مذکورہ نوجوان  فی الحال چترال کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔ اس نوجوان کی عمر لگ بھگ ۱۸ سال ہے اور یہ چترالی زبان بھول چکا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email