میڈیا فرعون کے گرد قانون کا گھیرا تنگ، کڑی سزا کا امکان

میڈیا فرعون میر شکیل  کے خلاف قانون کا گھیرا مزید تنگ ہوگیا ہے، ملزم  کی بریت کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق  احتساب عدالت میں جنگ و جیو کے مالک میر شکیل کیخلاف غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

عدالت نے میر شکیل، ہمایوں فیض رسول اور میاں بشیر کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ میر شکیل سمیت دیگر ملزموں کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ 8 ستمبر کو سنایا جائے گا۔

اس سے قبل  احتساب عدالت کے جج اسد علی نے ملزم میر شکیل سمیت دیگر کیخلاف غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کی جس میں  نیب کی طرف سے سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری اور حارث قریشی پیش ہوئے۔

ملزم میر شکیل اپنے وکیل محمد نواز چودھری کے ہمراہ  عدالت میں پیش ہوئے جبکہ  شریک ملزم سابق ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ بشیراحمد بھی عدالت پیش ہوئے۔

طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر شریک ملزم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر  نے میر شکیل اور دیگر کی بریت کی درخواست کیخلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1980  میں ایل ڈی اے نے محمد علی جوہر ٹاؤن ، سبزہ زار اور مصطفی ٹاؤن کی اسکیمز اور ایگزمپشن پالیسیز بنائیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 180  کنال زمین محمد علی کے نام پر تھی جو ایل ڈی اے نے جوہر ٹاؤن کیلئے اکتوبر 1982ء کو ایکوائر کی۔ وزیر بی بی، جہاناں بی بی، ہدایت علی، حاکم علی، حمیداں بی بی کے نام پر ایوارڈ جاری ہوا۔

نیب پراسیکیوٹر  نے مزید کہا کہ ایگزمپشن پالیسی کے تحت 180 کنال 18 مرلے کے بدلے میں 54 کنال زمین الاٹ ہونا تھی۔33 کنال زمین نہر کے پاس واقع تھی، 124 کنال زمین سوک سنٹر کے پاس واقع تھی۔میر شکیل کو 55 کنال زمین الاٹمنٹ کی سمری ارسال کی گئی جبکہ ملزم کو 59 کنال زمین الاٹ کی گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  ایگزمپشن پالیسی کے تحت نہر پر واقع 33 کنال کے بدلے 11 کنال زمین الاٹ ہونا تھی۔1986   کو میر شکیل الرحمان نے ڈی جی ایل ڈی اے کو عبوری تعمیر کی درخواست دی  اور 4 جون 1986ء کو ہی ڈی جی نے درخواست پر سمری وزیراعلیٰ کو دینے کی آبزرویشن دی۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ  زمین ایکوائر ہونے کے بعد عبوری تعمیر کی اجازت نہیں تھی۔ ایل ڈی اے نے ازخود ملزم کو ایگزمپشن کی آفر کی، میر شکیل کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کیلئے سمری پر روزانہ کی بنیاد پر کام کیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  ایل ڈی اے نے عبوری تعمیر کی درخواست پر سمری میں کہا کہ عبوری تعمیر نہیں ہو سکتی مگر ایگزمپشن پر الاٹمنٹ ہو سکتی ہے۔  نواز شریف کو میر شکیل کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی سمری بھجوائی گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ  نہر کنارے واقع 59 کنال  کی زمین مکمل بلاک کی شکل میں ملزم کو الاٹ کی گئی۔ ملزم میر شکیل نہر کنارے پر محض 10 کنال زمین الاٹمنٹ کا حقدار تھا۔ ملزم کو الاٹمنٹ کی 56 کنال کی سمری بھیجی گئی اور موقع پر 59 کنال زمین دی گئی۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ  ایگزمپشن پالیسی 30 فیصد کے حساب سے زمین الاٹ کرنے کی پابند ہے، پالیسی میں کسی بھی مالک کو ایک کنال کے 15 سے زیادہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ملزم میر شکیل کو ایک 59 کنال پر مشتمل مکمل بلاک الاٹ کیا تھا اور  سڑکیں بھی اس میں شامل کر دی گئیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پالیسی کے تحت ایکوائرمنٹ سے قبل جہاں زمین تھی اسی کے قریب زمین الاٹ ہونا تھی۔ میر شکیل کو جوہر ٹاؤن میں سوک سنٹر، نہر اور دیگر مختلف جگہوں پر الاٹمنٹ ہونا تھی۔

ملزم کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ  میر شکیل سوک سنٹر کے قریب جگہ لینے کو تیار ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے کہا کہ  جنت دیکھ کر نہیں ملتی،جب ملزم کو زمین الاٹ ہوئی تھی تب لیتے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ  نے نیب پراسیکیوٹر کے ہائیکورٹ کی ضمانت خارج کرنے کے فیصلے کو پیش کرنے پر اعتراض کیا جس پر  نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ نے میر شکیل کی گرفتاری کیخلاف درخواست کو بھی بلاجواز قرار دیا تھا۔  ہائیکورٹ نے ملزم میر شکیل کو میاں بشیر اور ہمایوں فیض رسول کی ملی بھگت سے پلاٹ الاٹ کروانے کے الزام پر آبزرویشن دی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  میر شکیل 54 کنال کا حقدار تھا، سمری 56 کنال کی تیاری ہوئی جبکہ ملزم کو 59 کنال زمین دی گئی۔1992  میں ایل ڈی اے نے سڑکیں شامل کرنے پر میر شکیل کو رعایت دی اور 64 لاکھ روپے جمع کروانے کا خط دیا۔

جج اسد علی  نے استفسار کیا کہ  پرائس اسسمنٹ کمیٹی قانون کے مطابق بنائی گئی تھی؟  جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  نیب نے ایل ڈی اے کو خط لکھا تھا اس پر 14 کروڑ روپے کا تخمینہ لگا کر دیا گیا۔

ملزم کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ  نیب تو کہتا ہے کہ میر شکیل 14 کروڑ روپے دے اور گھر چلا جائے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم میر شکیل اگر پلی بارگین کرنا چاہتے ہیں تو درخواست دے دیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ   میر شکیل اس کیس میں بری ہو گا اور نیب کیخلاف ہرجانے کا دعویٰ کرے گا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  امجد پرویز ایڈووکیٹ نے تو یہ بھی کہا تھا  کہ بریت کی درخواست پر نیب کا جواب نہیں آئے گا، مگر نیب نے جواب دیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے تمام کیسز برابر ہیں، قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کریں گے۔ اسد کھرل، سید جاوید اقبال سابق سیکرٹری وزیراعلیٰ، اظہر علی سمیت 12 گواہوں کے بیانات ہونا باقی ہیں۔ملزم میر شکیل کیخلاف ابھی ٹھوس شواہد اور گواہ موجود ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ  ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ اظہر نے نیب میں جوہر ٹاؤن کے ماسٹر پلان کی رپورٹ پیش کی۔ گواہ اظہر نے بیان دیا کہ 2 سڑکیں میر شکیل کو دے دی گئیں، یہی نیب کا کیس ہے۔ پراسکیوشن کے گواہوں کے بیانات قلمبند  کیے بغیر ملزم کی بریت کی درخواست منظور نہیں کی جا سکتی۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ  اعانت جرم کا ذکر احتساب آرڈیننس کی دفعہ 9 اے 12 کو 23 نومبر 2002ء کو قانون میں شامل کیا گیا ہے۔ اعانت جرم کی دفعات کبھی بھی نیب آرڈیننس سے خارج نہیں تھیں، نیب آرڈیننس 1999ء میں اعانت جرم کی دفعات کا بھی ذکر ہے۔نیب آرڈیننس کا اطلاق 1985ء سے ہی ہوتا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر  نے کہا کہ فوجداری کیسز کو پراسکیوشن کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد فیصلہ کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ ملزم میر شکیل اور دیگر کیخلاف مناسب مواد موجود ہے، پراسیکیوشن کو ٹرائل مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ  میر شکیل کیس میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی کلاسیکل مثال موجود ہے۔میر شکیل کیس میں تفتیشی افسر بھی نیب کا اہم گواہ ہے جس پر  امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ   گواہ اظہر علی، سید جاوید اقبال کے بیانات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی کیس ثابت نہیں ہوتا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ  نیب آرڈیننس جب 1999ء  میں نافذ ہوا تو اس کا اطلاق 1985ء سے کیسے کیا گیا۔ اعانت جرم کی دفعہ کو جب ترمیم کے ذریعے اس قانون میں شامل کیا تو اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا گیا۔ اس لیے پہلا نقطہ یہ ہے کہ قانون کے تحت یہ کیس بنتا ہی نہیں تھا۔

جج اسد علی  نے استفسار کیا کہ  آپ یہ بتائیں زیادہ زمین، سڑکیں کیسے الاٹمنٹ میں شامل کر لی گئیں جس پر  امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ  نیب نے میر شکیل کی گرفتاری کے بعد ایل ڈی اے سے الاٹمنٹ سے زائد زمین پر تخمینہ لگوایا،  نیب نے پورے ریفرنس میں 14 کروڑ کی رقم کا تقاضا نہیں کیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا یہ بھی دیکھنا ہے کہ سڑکیں کیسے میر شکیل کو دی جا سکتی ہیں؟

جج نے استفسار کیا کہ  آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 14 کروڑ دے دیں؟ جب ایک چیز حرام ہے تو کیسے رقم کی ادائیگی  سے حلال ہو جائے گی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  نیب نے کبھی بھی ملزم میر شکیل سے 14 کروڑ کا تقاضا نہیں کیا۔یہ کیس قانون کی خلاف ورزی کا ہے، جب ایک بار گلی بن گئی تو وہ ہمیشہ گلی ہی رہتی ہے۔

جج اسد علی  نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ  آپ نے عبوری تعمیر کی اجازت مانگی تھی ،ایگزمپشن پر الاٹمنٹ نہیں مانگی تھی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ  میر شکیل تسلیم کرتے ہیں انہوں نے الاٹمنٹ سے زائد زمین حاصل کی تاہم  ایک ہی بلاک میں میر شکیل کو الاٹمنٹ پر کسی ادارے یا فرد کو کوئی مالی نقصان نہیں ہوا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  یہ بریت کی درخواست میں دلائل ہیں کوئی کیس کا حتمی فیصلہ نہیں جس میں اتنی تفصیلی بحث ہو رہی ہے جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ  نیب کا گواہ اظہر کہتا ہے کہ 1990ء میں جوہر ٹاؤن کا ماسٹر پلان منظور ہوا، الاٹمنٹ 1987ء کو ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ   نیب کے گواہوں کے بیانات کو ریکارڈ کرنے دیں۔ نیب روزانہ کی بنیاد پر گواہ پیش کروا کر ٹرائل مکمل کروا دیتا ہے۔

حیدر رسول مرزا ایڈووکیٹ نے کہا کہ   وزیراعلیٰ نواز شریف نے بطور چیئرمین جوہر ٹاؤن ماسٹر پلان کی 1990ء میں منظوری دی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ  اگر نیب سمجھتا ہے کہ تمام کارروائی غیر قانونی ہوئی تو دستاویزات پر دستخط کرنیوالوں کو اس کیس میں ملزم یا گواہ ہونا چاہئے تھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ  ملزم میر شکیل نے اس وقت کے وزیراعلی نواز شریف کی ملی بھگت سے 1، 1 کنال کے 54 پلاٹ ایگزمپشن پر حاصل کیے ۔ ملزم کا ایگزمپشن پر ایک ہی علاقے میں پلاٹ حاصل کرنا ایگزمپشن پالیسی 1986 کی خلاف ورزی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نےمزید کہا کہ  ملزم میر شکیل نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کرلیں۔ ملزم میر شکیل نے اپنا جرم چھپانے کیلئے پلاٹ اپنی اہلیہ اور کمسن بچوں کے نام پر منتقل کروا لیے۔

The post میڈیا فرعون کے گرد قانون کا گھیرا تنگ، کڑی سزا کا امکان appeared first on .

Print Friendly, PDF & Email