چترال میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 16ہوگئی،عوام میں تشویش کی لہر

چترال(زیل نمائندہ)چترال میں چار مزید مشکوک مریضوں کی  ٹیسٹ مثبت آگیا جس سے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد16 ہوگئی۔ چترال میں آئے روز کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے عوام میں تشویش کی لہر بڑھ گئی ہے۔ محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ کو آرڈینیٹر ڈاکٹر نثار اللہ کے مطابق  ضلع اپر چترال سے تعلق رکھنے والے  ثناء اللہ ولد صاد ق اللہ عمر 22 سالہ  جوچرون کا باشندہ ہے20 اپریل کو پشاور سے آیا تھا  ان کو گورنمنٹ  ڈگری کالج بونی کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا کل اس کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا  جس کے بعد اسے آئی سولیشن وارڈمنتقل کردیا گیا۔

محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق  زیریں چترال سے تعلق رکھنے والے  ہجرت بیگم زوجہ  معین اللہ عمر 38 سال جو  پاک افغان سرحدی علاقے دومیل  کی رہائشی ہے  وہ بھی پشاور سے آئی تھی اسے دروش کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا کل اس کا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آنے کے بعد اسے بھی ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ منتقل کردیا گیا۔  ترجمان کے مطابق  مسلم شاہ ولد عجائب شاہ سکنہ  گہتک دنین عمر 64 سال جو پنجاب کے ضلع خوشاب سے  آیا ہوا تھا اسے بھی چترال ڈگری کالج کے قرنطینہ میں رکھا گیا تھا اور  عبدالفیاض ولد  عبد اللہ خان سکنہ دنین  عمر 28 سال یہ بھی پنجاب کے خوشاب ضلع سے چترال آیا ہوا تھا  او ر اسے بھی گورنمنٹ کامرس کالج کے ہاسٹل میں مقیم قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا دونوں کا ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں بھی آئسولیشن وارڈ منتقل کیا گیا اور یوں چترال میں کوروناوائرس کے مریضوں کی تعداد 16 ہوگئی۔

چترال میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ضلعے کے واحد ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں سہولیات کا فقدان بھی نظر آرہا ہے۔ ہسپتال میں صرف تین ونٹی لیٹرز ہیں اور انہیں چلانے کے لیے  بھی تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہے۔ چترال کے لوگ صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال کے ہسپتالوں میں کرونا وائرس کی وباء کے روک تھام اور علاج معالجے کے لیے عملہ کے ساتھ ساتھ ضروری سامان اور مشنری بھی ہنگامی بنیادوں پر مہیا کیا جائے۔

دریں اثناء عوامی حلقوں میں اس بات پر نہایت تشویش پائی جاتی ہے کہ کامرس کالج کا قرنطینہ مرکز  کرونا وائرس کی پیداوار کا ایک مرکز بن چکا ہے جہاں سے کئی کیس مثبت آچکے ہیں اور وہاں قرنطینہ میں رہنے والے ایک مریض نے نام نہ بتانے کی شرط پر ہمارے نمائندے کو ٹیلی فون پر بتایا کہ کا مرس کالج کے ہاسٹل میں 43 سے 53 مریض رکھے جاتے ہیں جہاں صرف چار واش روم  ہیں اور سب لوگ اسی واش روم اور لوٹے کو بار بار استعمال کرتے ہیں جس سے یہ وباء ایک دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس بابت تحقیقات کرانے کا اپیل بھی کی ہے۔

چترال کے قرنطینہ مرکز میں قیام لوگوں  کا بھاگ جانے سے بھی لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔  تفصیلات کے مطابق حیا ت الرحمان ولد  سعید اللہ خان سکنہ کاری چترال  جو 8 اپریل کو پشاور سے آیا تھا اور  کامرس کالج کے ہاسٹل نمبر 2 پہلی منزل کے قرنطینہ مرکز میں اسے رکھا گیا تھا  وہ اتوار کے روزشام آٹھ بجے اپنے کمرے سے بھاگ گیا جبکہ پولیس اس کی تلاش کررہی ہے۔ اسی طرح چترال ٹوڈے کے مطابق  حرمت شاہ ولد خان گل سکنہ علی آباد وادی آرکاری جو راولپنڈی سے دو دن پہلے  آیا ہوا تھا  چترال پہنچنے پر اسے کامرس کالج کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا۔ مگر چند لمحوں بعد ایک سرکاری گاڑی وہاں پہنچ گئی اور اسے وہاں سے نکال کر اسے کے گھر پہنچایا گیا جس سے علاقے کے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے کوروناوائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات میں دغلی پالیسی اختیار کرنے پر چترال کے عوام شدید کوفت میں مبتلا ہیں اور غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کو تو پولیس گھروں سے نکال کر قرنطینہ مرکز میں ڈالتی ہے مگر بعض با اثر لوگوں کو سرکاری گاڑی میں قرنطینہ مرکز سے نکال کر غیر قانونی طور پر ان کے گھر پہنچا یا جاتا ہے جس سے کرونا  وائرس کے  پھیلنے کا خدشہ حقیقت کا روپ دھارتی ہے۔  علاقے کے لوگوں نے اس بابت بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email