یاک پولو، جشن بروغل کا منفرد کھیل

بروغل(زیل نمائندہ)سطح سمندر سے ۱۳ہزار فٹ کے بلندی پر واقع وادی بروغل میں یاک پولو کا میچ نہایت دلچسپ ہوتا ہے۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے  دور  و دراز سے سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔ یاک کو مقامی زبان میں(زوغ) اور اردو میں  خوش گاؤ کہا جاتا ہے۔  یاک ایک جنگلی بیل کی طرح جانور  ہے مگر اس کی دم  اور جسم پر لمبے لمبے بال ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی دیدنی ہوتی ہے۔ یاک کے ناک میں سوراخ کرکے اس میں نکیل ڈالا جاتا ہے جس میں رسی ڈا ل کر اسے قابو کیا جاتا ہے۔ یاک پولو اور گھوڑا پولو فرق صرف اتنا ہے کہ گھوڑا تیز دوڑتا ہے مگر یاک تیز نہیں دوڑ سکتا۔

ہر ٹیم میں چھے  چھے کھلاڑی ہوتے ہیں اور بال  مرکز میں پھینکا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر کھلاڑی کوشش کرتا ہے کہ اسے اسٹک سے مار کر آگے بڑھاتاہے  اور گول پول سے گزار کر گول کیا جاتا ہے۔  جو کھلاڑی گول کرنے میں کامیاب ہوتا ہے وہ بال کو ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے  یاک کو دوڑاتا ہے اور مرکز میں آکر فلائنگ ہیٹ مارتا ہے ۔  اس دوران مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ اس بال کواسٹک سے مار کر پیچھے کی طرف دھکیلے اور اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پھینک کر مخالف سمت میں گول کرنے کی کوشش کرے۔جشن بروغل ۲۰۱۹ میں یاک پولو کا مقابلہ بہت دل چسپ رہا۔  بروغل وادی کی دونوں ٹیمیں مقامی کھلاڑیوں پر مشتمل تھیں  جو تماشائیوں کو خوب محظوظ کیا۔ پچیس منٹ کے بعد ہاف ٹایم ہوتا ہے اور کھلاڑی تازہ دم ہوکر دوبارہ کھیل کے میدان میں اترتے ہیں۔ ہاف ٹائم کے بعد پھر نہایت دلچسپ مقابلہ شروع ہوا اور  آخر کار اشکر واز کی ٹیم فاتح قرار پائی  جس نے چکار کے ٹیم کو شکست دی۔

ڈپٹی کمشنر اپرچترال  شاہ سعود اور دیگر مہمانوں نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے تاہم کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ تماشائیوں اور سیاحوں نے بھی شکایت کی کہ پچھلے سالو ں میں بروغل کا تہوار ایک قدرتی میدان میں کھیلاجاتا تھا جہاں گھاس اگ چکے تھے اور کھیل کے دوران مٹی اور گرد و غبار بھی نہیں تھا ساتھ ہی خواتین اور تماشائیوں کے لیے مناسب بیٹھنے کی جگہہ بھی موجود تھی مگر امسال اس کھیل کے میدان پر تقریباً چار کروڑ روپے لگائے گئے  اور میدان بھی ناقص ہے۔ جہاں اتنی مٹی اور گرد و غبار اٹھتی ہے کہ تماشائی وہاں بیٹھ نہیں سکتے تھے۔  انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بابت تحقیقات کی جائے او ر اس میدان میں گھاس لگا کر مٹی اور گرد و غبار سے لوگوں کو بچائے اور خواتین کی بیٹھنے کی لیے بھی مناسب بندوبست کی جائے۔

Print Friendly, PDF & Email