چترال میں توانائی کا شعبہ- وسائل اور مسائل

آگہی:
جمہوری معاشروں میں عومی رائے فیصلہ سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کسی مسئلے پر عوامی رائے کی تشکیل کے لیے پہلا مرحلہ مسئلے کی نوعیت اور اس کے ممکنہ حل کی بارے میں عوام میں شعور اور آگہی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے کی تحریروں  کا مقصد مختلف اہم مسائل پر عوامی آگہی کو فروغ دینا ہے۔


آج کل پوری دنیا میں توانائی کو ایک بنیادی مسئلے کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ہر ملک اور علاقے میں مسئلے کی نوعیت جدا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں بیشتر وقت توانائی کا بحران رہتا ہے۔ تیل اور گیس کی ملکی پیداوار ضرورت سے بہت کم ہے اس لیے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو ہماری ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ آبی وسائل سے بجلی کی پیداوار کے امکانات اگرچہ وسیع ہیں لیکن ان سے ابھی تک بہت کم فائدہ اٹھایا گیا ہے۔

چترال ملک کے ایک دوردراز اور دشوار علاقے میں واقع ہے۔ یہاں پر اکثر سہولیات کی قلت رہتی ہے۔ توانائی کی یہاں خاص طور پر قلت ہے اور سرد موسم کی وجہ سے توانائی کی ضروریات دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ قدرتی گیس کی ترسیل کا کوئی نظام اس علاقے تک پہنچنے کے امکانات معدوم ہیں جبکہ بجلی کے قومی گرڈ سے بہت محدود مقدار میں بجلی یہاں پہنچتی ہے۔ مزید برآں اس کی سپلائی بھی قابل بھروسہ نہیں۔ مقامی طور پر بجلی کا کوئی  قابل ذکر منصوبہ نہیں لگایا گیا ہے۔ ان حالات میں کھانا پکانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے محدود رقبے اور ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے جنگلات بہت کم ہیں اور وہ بھی بہت دیر سے اُگنے والے۔ چنانچہ جنگلات پر دباؤ بہت زیادہ ہے اور یہ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ جنگلات کا خاتمہ دوسری طرف ماحولیاتی تباہی کا سبب بن رہا ہے جس کا ایک نتیجہ سیلابوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اگر صورت حال اسی طرح بگڑتی رہی تو خطرہ ہے کہ ایک سنگین بحران پیدا ہوجائے اور یہاں سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہونے لگے۔

پن بجلی کے وسائل۔

لیکن خوش قسمتی سے چترال میں پانی کی صورت میں  توانائی کا ایک ذریعہ ایسا ہے جو نہ صرف وسیع امکانات کا حامل ہے بلکہ دیرپا اور ماحول دوست بھی ہے۔  چترال کے اندر کئی دریا اور ندیاں مل کر ایک کافی بڑے دریائی سسٹم کی تشکیل کرتے ہیں جسے دریائے چترال کہتے ہیں۔ یہ دریا افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے سینکڑوں کلومیٹر  کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اس کا اور اس کے معاونین کا بہاؤ بہت تیز ہے اور ان کے آغاز سے افغانستان میں داخل ہونے کے مقام تک بلندی کا کوئی سات ہزار فٹ کا فرق ہے۔ چنانچہ ان سب آبی وسائل پر بے شمار مقامات پر بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چترال کے اندر مختلف مقامات پر  کوئی چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی۔

چترال میں پن بجلی کی پیداوار کی کوششیں کافی قدیم ہیں۔   1932 میں مہتر چترال نے شاہی مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا پن بجلی گھر بنایا جس سے قلعے کو بجلی فراہم ہوتی تھی۔ مہتر سر محمد ناصر الملک (1936- 1943) نے اپنے دور میں سنگور کے موجودہ پاور ہاؤس کی جگہ ایک پن بجلی منصوبہ شروع کیا۔ اس کے لیے سروے وغیرہ کراکر سامان کا آرڈر بھی دیا گیا۔ بلکہ کچھ سامان دیر تک پہنچا تھا کہ مہتر کی وفات ہوگئی اور منصوبہ ترک کردیا گیا۔ اسی جگہ پر ریاست کے خاتمے کے بعد نیا منصوبہ شروع کیا گیا جو 1975 میں تکمیل کو پہنچا۔ منصوبے سے چترال ٹاؤن کو بجلی فراہم کی گئی لیکن شروع ہی سے چترال ٹاون بجلی کے سلسلے میں مسائل کا شکار رہا۔ بعد میں بجلی گھر کی صلاحیت میں اضافہ کیا گیا لیکن وہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔ بعد میں یہاں ڈیزل کے جنریٹر بھی لگائے گئے۔   1988 میں چترال کو قومی گرڈ سے بجلی فراہم کرنے کے لیے دیر سے لائن لائی گئی۔ لیکن اس سے بھی مسئلہ جوں کا توں رہا۔ لواری کے اوپر لائین کے بار بار منقطع ہونے کے علاوہ وولٹیج کی کمی کا مسئلہ بھی شروع ہی سے موجود رہا۔ 1980 کی دہائی میں صوبائی حکومت کا بجلی کا ادارہ شائیڈو قائم کیا گیا۔ اس ادارے نے شیشی اور ریشن میں اپنے منصوبے شروع کیے۔ دونوں پراجیکٹ کافی دیر سے تکمیل کو پہنچے اور کبھی اپنی پوری گنجائش پر کام نہ کر سکے۔ ریشن کا بجلی گھر جو بالائی چترال کی اکثر آبادی کو بجلی فراہم کرتا تھا، 2015 کے سیلاب میں مکمل طور پرتباہ ہوگیا اور ابھی تک اس کی بحالی کا کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں مصروف دونوں سرکاری ادارے یعنی واپڈا اور پیڈو (سابقہ شائیڈو)  مل کر چترال کے اندر ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ جبکہ چترال کے اندر بجلی کی ضرورت کوئی پندرہ سے بیس  میگاواٹ تک بتائی جاتی ہے۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ چترال کے اندر اس وقت دو منصوبوں پر کام جاری ہے یعنی 106 میگاواٹ کے گولین گول  اور 65 میگاواٹ کے لاوی۔ ان کے علاوہ تقریباً 2000 میگاواٹ کے دیگر کئی بجلی گھر منصوبہ بندی کے مختلف مراحل میں ہیں۔ کچھ کی نشاندہی ہوچکی ہے جبکہ کچھ ابتدائی مرحلوں سے گذر کر ڈیزائین تک ہوچکے ہیں اور کام کے آغاز کے لیے بالکل تیار ہیں۔   ان میں شغور-سین، تریچ-کشم، لاسپور-میراگرام، نخچیردم-پاوور، کوراغ-پرئیت، جومیشیلی-موری لشٹ، استارو-بونی، کیسو-سویر، برم گول اور ارکاری گول نمایاں منصوبے ہیں۔ ان منصوبوں پر کام ہونے کی صورت میں نہ صرف پورے ملک میں توانائی کی صورتحال بہتر ہوجائے گی بلکہ مقامی طور پر روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔

چھوٹے پن بجلی کے منصوبے۔

1980 کی دہائی میں چترال میں این جی اوز کا عمل دخل شروع ہوا۔ این جی اوز کے کام کرنے کا بنیادی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ مقامی کمیونٹی کو منظم کرکے ترقیاتی کاموں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ  کمیونٹی نہ صرف پراجیکٹ کی نشاندہی اور عمل درآمد میں پوری طرح شریک ہو بلکہ مکمل ہونے کے بعد اسے چلانے کا کام بھی اپنے ہاتھوں میں لے لے۔ این جی اوز کی مدد سے مختلف دیہات میں دیگر کاموں کے علاوہ چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے گئے۔  یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور چترال کی آبادی کا ایک خاصا حصہ چھوٹے بجلی گھروں سے استفادہ کرتا ہے۔ اگرچہ اس شعبے میں کافی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور قیمتی تجربہ بھی حاصل ہوا ہے۔ لیکن یہ طریقہ کار طویل مدتی بنیادوں پر کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ کمیونٹی کو اچھی طرح منظم نہیں کیا جاسکا، جس کی وجہ سے منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان کا انتظام ٹھیک طرح سے نہیں ہوسکتا اور کئی منصوبے اسی وجہ سے ناکام ہوچکے ہیں۔  نیز کمیونٹی صرف چھوٹے دیہات ہی میں ایک یونٹ کے طور پر منظم ہوسکتی ہے۔ بڑے دیہات اور قصبوں کے رہنے والوں  میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور انہیں مل جل کر کام کرنے پر امادہ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔  دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ یہ ہے کہ کم پیداواری گنجائش کے سبب چھوٹے بجلی گھروں کی لاگت کم رکھنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ان میں مہنگی ٹیکنالوجی استعمال نہیں کی جاسکتی لہٰذا ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان بجلی گھروں میں وولٹیج کے کنٹرول کا خود کار نظام موجود نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے انہیں صرف رات کے وقت چلایا جاتا ہے جب اس پر لوڈ پورا ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر چھوٹے بن بجلی گھر صرف قلیل مدتی حل ہی کے طور پر کام دے سکتے ہپیں۔ ان کی مدد سے توانائی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنا ممکن نہیں۔

بیرون ملک سے بجلی کی درامد۔

گذشتہ چند سالوں سے ایسی خبریں گردش میں رہی ہیں کہ تاجکستان سے پاکستان بجلی کی ترسیل کا منصوبہ زیر غور ہے۔ ہمارے ہاں اس خبر کو لے کر بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے کہ اس منصوبے سے چترال کو بھی بجلی ملے گی۔ اس قسم کی باتیں زمینی حقائق سے بہت دور اور wishful thinking کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اول تو تاجکستان اور پاکستان کے درمیان کئی سو کلومیٹر افغان علاقہ پڑتا ہے۔ افغانستان میں مستقبل قریب میں استحکام پیدا ہونے اور اس کے ہمارے ملک سے اچھے تعلقات بننے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف تاجکستان کوئی توانائی کے وسائل سے مالامال ملک نہیں۔ اس کے پاس توانائی کا واحد وسیلہ ایک دریا ہے جو شاید دریائے چترال سے بڑا نہیں۔ اس دریا پر سویت یونین کے زمانے میں بجلی گھر بنائے گئے تھے جن کی کچھ بجلی تاجکستان کی ضرورت سے فی الحال زائد ہے اور وہ اسے فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس بجلی کو خریدنا چاہیں تو اربوں ڈالر کی لاگت سے ٹرانسمیشن لائین تعمیر کرنی پڑے گی جو افغانستان اور پاکستان کے کم از کم چار بلند پہاڑی سلسلوں سے گذرے گی جن کی اونچائی 16000 فٹ تک ہے۔ ایسی ٹرانسمیشن لائین کی تعمیر اور اس کے انتظام کی لاگت اتنی زیادہ ہوگی کہ اتنے خرچ سے ملک کے اندر اس سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ مزید یہ کہ بجلی کی قیمت زرمبادلہ میں ادا کرنی ہوگی۔ کوئی لیڈرشپ جس کی نیت اور دماغی حالت درست ہو، اس قسم کے غیر محفوظ اور مہنگے  کاموں میں ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ لہٰذا اس قسم کی باتوں پر یقین کرنا اور ان کی حمایت کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

نجی شعبہ۔

پن بجلی کے منصوبے ہمارے ملک میں نجی شعبے کے لیے زیادہ پرکشش ثابت نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ان میں ابتدائی لاگت کافی زیادہ آتی ہے۔ نیز زمین اور پانی کے استعمال کے حقوق کا مسئلہ بھی عام طور پر رکاوٹ بنتا ہے۔ لیکن چترال میں یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے۔ چترال کی  بڑی آبادیوں ایون، بروز اور گہیرت کو ایک نجی بجلی گھر سے گذشتہ کئی سالوں سے بجلی کی فراہمی بڑی کامیابی سے ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں نجی شعبے کے لیے سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

دریائی سسٹم کا انتظام (River Basin Management)

چترال کے دریاوں پر ابھی تک پن بجلی کے جنتنے منصوبے زیر تعمیر یا زیر غور ہیں، وہ سب run-of-the-river قسم کے ہیں۔ یعنی ان میں دریا کا پانی براہ راست بجلی گھر کو چلانے میں استعمال ہوتا ہے اور پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیم نہیں ہوتا۔ اس قسم کے بجلی گھروں کی پیداوار موسم سرما میں بہت کم ہوتی ہے جب دریاوں میں پانی بہت کم رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف گرمیوں میں پانی اتنا زیادہ آتا ہے کہ اس کو پوری طرح استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر چترال کے ہر دریا پر ایک ڈیم بنایا جائے تو گرمیوں میں آنے والا زاید پانی ذخیرہ کرکے اس وقت استعمال کیا جاسکے گا جب دریاؤں میں پانی بہت کم رہ جاتا ہے۔ ڈیموں کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ دریاوں میں پانی کی مقدار کو کنٹرول کیا جاسکے گا اور گرمیوں میں سیلابی صورت حال کے نتیجے میں جو نقصانات ہوتے ہیں ان سے بچا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں کی گذرگاہ کے ساتھ واقع زمینیں زیر کاشت لائی جاسکیں گی۔ ڈیموں کے ساتھ یہ مسئلہ ضرور ہوگا کہ وقت کے ساتھ یہ بھر جائیں گی۔ دریاوں میں ملبے کی آمد کی ایک وجہ زمینی کٹاو بھی ہے۔ جنگلات کے تحفظ اور نئے پودے لگا کر زمینی کٹاو کو روکا جاسکتا ہے جس سے دریاؤں میں ملبے کی مقدار کم ہوگی اور ڈیموں کی عمر میں اضافہ ہوگا۔ تاہم طویل عرصے میں ڈیموں کے بھرنے کی صورت میں ان کے ساتھ نئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔

تجاویز۔

  1. چترال کے اندر بجلی کے تمام زیر غور منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ مزید سائیٹوں کے سروے وغیرہ کیے جائیں۔ جو منصوبے شروع کیے جائیں، ان کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔
  2. حکومت اپنی توجہ اور وسائل چھوٹے منصوبوں کے بجائے درمیانے اور بڑے منصوبوں پر مرکوز کرے۔ تاکہ فی یونٹ پیداواری لاگت کم ہو اور زیادہ پائیدار منصوبے لگائے جائیں۔ این جی اوز کو بھی نسبتاً بڑے منصوبوں کی طرف راغب کیا جائے۔
  3. نجی شعبے کی حوصلہ کرکے اسے پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پرآمادہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کو مراعات دی جائی اور منظوری کا طریقہ کار سہل بنایا جائے۔
  4. ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لیے جنگلات کی ہر قسم کی کٹائی کو فوری طور پر بند کردی جائےاور چترال کے لوگوں کو لکڑی کے متبادل کے طور پر رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے۔
  5. چترال کے ہر دریا پر ایک ڈیم بنایا جائے جو گرمیوں کے موسم میں آنے والا زائد پانی روک سکے۔ دریاؤں کے بہاو پر کنٹرول کے بعد دریاؤں کے ساتھ والی بے مصرف زمینوں کو پشتوں کے ذریعے محفوظ بنا کر استعمال میں لایا جائے۔
  6. چترال کے اندر بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے جس سے بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والے تمام ادارے منسلک ہوں۔ پرائیویٹ اور کمیونٹی کے تحت چلنے والے سارے یونٹوں کو اس نظام میں شامل کیا جائے تاکہ ایک یونٹ سے بجلی کی فراہمی میں خلل پڑنے کی صورت میں متبادل انتظام ہوسکے۔ اس طرح این جی اوز کی مدد سے بنائے گئے یونٹوں کو پائیدار بنیادوں پر کارآمد بنایا جاسکے گا۔ بہتر یہ ہوگا کہ پورے ضلع میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن ایک ہی ادارہ کرے اور دیگر ادارے اور نجی شعبہ اپنی بجلی اسے فروخت کرے۔

اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ توانائی کے مسئلے کو الیکشن کے دوران بنیادی ایشو کے طور پر اٹھانا چاہیے۔ عوام کو اس ایشو پر دلکش نعروں پر یقین نہیں کرنا چاہیے بلکہ زمینی حقائق سے آگاہ ہوکر حقیقت پسندانہ طریقے سے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے