میرے بیٹے کا مفت علاج کروانے پر آرمی چیف کا شکریہ، صوبیدار(ر) شہاب الدین

چترال(زیل نمائندہ)دروش  سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ صوبیدار شہاب الدین نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کور کمانڈر  پشاور لیفٹنٹ جنرل شاہین مظہر محمود کااپنے بیٹے کا مفت علاج کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے ۔ انہوں نے ایک پریس کانفرس میں کہا ہے کہ  ان کے معصوم بچے کی پکار پر لبیک کہہ کر ان کا مفت علاج کروایا گیا ہے جس کے لیے میں آرمی چیف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شہاب الدین نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ میرے معصوم بیٹے محمد عثمان کی انگلی ٹوٹ چکی تھی جسے دروش ہسپتال لے گیا تھا مگر وہاں اس کا علاج سہی  نہ ہوسکا بلکہ الٹا مزید خراب ہوگیا بعد میں اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز  ہسپتال چترال بھی لایا مگر یہاں بھی کوئی آرتھوپیڈک (ہڈیوں کا ڈاکٹر) نہ ہونے کی وجہ سے اس کا علاج نہ ہوسکا۔

بعد میں اسے پشاور لے گیا جہاں آرتھوپیڈک سرجن نے انکشاف کیا کہ اس کا غلط علاج ہوا ہے اور بچے کی معذور ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کے بعد میں نے چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کیا جہاں  سپیشل برانچ کے اہلکار بھی بھیٹے تھے مگر اس پریس کانفرنس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔ شہاب الدین نے مزید بتایا کہ بعد میں میں نےفری لانس صحافی (گل حماد فاروقی) کو بلایاجو پریس کلب کا رکن نہیں ہے اور میں نے اس کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے چیف آف آرمی سٹاف  اور کور کمانڈر پشاور سے اپیل کی تھی کہ وہ میرے بیٹے کا سی ایم ایچ پشاور میں مفت علاج کرائے۔ شہاب الدین نے کہا کہ اس وقت میری خوشی کی انتہا  نہ رہی جب میری پریس کانفرنس نشر ہونے کے بعد تھوڑی ہی دیر بعد مجھے ایک میجر صاحب نے فون کرکے کہا کہ فوری طور پر دروش چھاؤنی پہنچ جائے  اور بچے کو بھی ساتھ لائے۔

شہاب الدین نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے عثمان کو بھی میجر صاحب کے پاس لے گیا جہاں ان کی تصاویر لی گئی اور اسے الیون کور کو بھجودی گئی ساتھ ہی مجھے ہدایت کی گئی کہ  فوری طور پر بچے کو لیکر CMH ہسپتال پشاور پہنچے۔ ان کاکہنا ہے کہ جب میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پشاور پہنچ گیا تو ڈاکٹر میرے انتظار میں تھے اور انہوں نے میرے بیٹے کا مفت علاج شروع کیا اور اب بچے کی انگلی کافی حد تک ٹھیک ہورہی ہے۔

شہاب الدین نے سیاسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک چترال میں ایک آرتھوپیڈک سرجن کیوں نہیں ہے  اور دروش ہسپتال کا تو خدا ہی حافظ کیونکہ وہاں کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی آسامیاں کافی عرصے سے خالی ہیں مگر سیاسی قیادت نے ابھی تک اس مسئلے کی حل کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ چترال کے ڈومیسائل پر جتنے طلباء و طالبات کو میڈیکل کالج یا ڈنٹل کالجوں میں داحلہ مل کر ڈاکٹر بن جاتے ہیں ان سب کو پابند کرے کہ وہ کم ازکم پانچ سال کے لیے چترال میں خدمات سرانجام دے یا پھر حکومت یہ کوٹہ سسٹم ختم کرے  کہ اوپن میرٹ پر داخلہ لے۔

شہاب الدین نے سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ اسمبلی میں ایسی قانون سازی کرے کہ جن ڈاکٹروں نے چترال کی ڈومیسائل استعمال کرکے ان کو چترال کے کوٹہ میں جو ہر سال چھ نشستوں پر داخلہ ملتا ہے ان کا داخلہ اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد چترال میں لازمی پانچ سال تک ڈیوٹی کرے جو ڈاکٹر اس شرط کو نہیں مانتا ان کو پھر چترال کے ڈومیسائل پر داخلہ نہ دیا جائے بلکہ اوپن میرٹ پر  کوشش کرے  مگر مجھے نہیں لگتا کہ ان کو اوپن میرٹ پر داخلہ ملے گا۔

Print Friendly, PDF & Email