چیلم جوشٹ میں دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں نے شرکت کی

چترال(گل حماد فاروقی) کالاش قبیلے کے لوگ چترال کے پہاڑی سلسلوں میں گری ہوئی  تین وادیوں میں رہتے ہیں جو ہر سال دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں۔چیلم جوشٹ  جسے "جوشی” تہوار بھی کہاجاتا ہے کالاش لوگوں کا موسم بہارکی آمد کی خوشی میں منایاجانے والا تہوار ہے۔ چیلم جوشٹ کا تہوار وادی رومبور سے شروع ہوتے ہوئے  اگلے دو دن وادی بمبوریت میں منایا جاتا ہے۔  اس کے بعد اختتامی تقریب وادی بیریر میں ہوتی ہے۔ کالاش لوگوں کے اس رنگوں سے بھرے تہوار کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح وادی کالاش پہنچتے ہیں اور اس مرتبہ بھی  اس تہوار کی اچھی بات یہ تھی کہ سیاحوںاور صحافیوں کو کسی نے تنگ نہیں کیا جس طرح ماضی میں غیر ملکی سیاحوں اورپاکستانی اور مقامی صحافیوں کو بھی  NOC لینا پڑتا
تھا جو اس تہوار کا رنگ  پھیکا کرتا تھا۔ رومبور میں آخری دن کالاش مردوں نے اخروٹ جو ان کا مقدس درخت ہے اس کے پتےہاتھوں میں پکڑ کر دریا کی جانب کھڑے ہوکر اسے ہلاتے رہے جبکہ خواتین نےمردوں کے پیچھے کھڑے ہوکر اخروٹ کی ٹہنیوں اور پتوں کو ہلاتے  رہے۔  جب مردوں نے ان پتوں کو دریا کی جانب پھینکا تو خواتین نے رقص گاہ جہاں وہ رقص پیش کرتی ہیں وہاں پتے پھینکے جبکہ بمبوریت میں ایسا نہیں ہوتا وہاں مرد  دور جاکر ہاتھوں میں اخروٹ کے پتے اور ٹہنیاں پکڑ تے ہوئے اسے ہلاہلا کر دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہیں جبکہ  خواتین رقص کے میدان میں  کھڑی ہوکر پتے ہلاتی ہیں اور جب مرد ان کے قریب پہنچتے ہیں وہ پتے اور پھول ان پر نچھاور کرتے ہیں جبکہ خواتین ان پتوں کو مردوں پر پھینکتی ہیں۔ اس مرتبہ چیلم جوشٹ کے تہوار میں صوبائی اسمبلی کے اقلیتی اراکین جن میں کالاش، سکھ، ہندوں اور عیسائی مذہب کے ممبران  شامل تھے خصوصی طور پر شرکت کی۔ مڈل ایسٹ میں مقیم ڈاکٹر محمد عدنان بھٹہ  نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ وہ خصوصی طور پر اس تہوار کو دیکھنے کے لیے  پاکستان آیا  انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے مگر کالاش خواتین ناچتی ہیں گاتی ہیں جشن مناتی ہیں کوئی مسئلہ نہیں اور مسلمان ان سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ وزیر زادہ کالاش کی صوبائی اسمبلی کی خصوصی نشست  پر چترال کی نمائندگیکررہا ہے انہوں نے تمام  مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے کالاش لوگ نہایت سکون اور امن کے ساتھ پہاڑوں کے بیچ میں ان دروں میں رہتے ہیں۔ رمیت کمار جو ہندو  قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور صوبائی اسمبلی کا رکن ہےاس نے اس تہوار پر نہایت خوشی کا اظہار کیا کہ اس تہوار میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی اور اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملتی ہے۔ امرینہ جس نے پہلی پہلی بار کوک سٹوڈیو میں کالاشی زبان میں گانا گاکرہلچل مچائی تھی  نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس نے نئے کپڑے پہنے ہوئےہے اور وہ اس تہوار میں بھی گانا گاکر خوشی منارہی ہے۔ آریانا اعظم نے امرینہ کے ساتھ مل کر کو ک سٹوڈیو میں گانا گایا تھا وہ بھی اس تہوار پر بہت خوش ہے اس کا کہنا ہے کہ ہماری ڈانس یعنی رقص والی جگہہ جسے ہم چارسو کہتے ہیں اگر بڑا کیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ دوسرا اس نے سڑکوں کی خراب حالت کی بھی شکایت کی  کہ وادی کالاش کو جانے والیسڑکوں کی حالت نہایت خراب ہے جس کی وجہ سے اکثر سیاح یہاں آنے سے کتراتےہیں۔
مسز نسیم صادق لاہور سے آئی ہوئی تھی اور  اس نے خود بھی کالاش  لباس پہن رکھی تھی  اس کا کہنا ہے کہ اس تہوار کو مزید تقویت دینے کے لیے  سیاحوں کے لیے  انتظامات کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح یہاں  آئیں  اور یہ علاقہ ترقی کرکے یہاں کے لوگوں کی  لوگوں کیغربت میں کمی آئے گی۔کالاش قبیلے کا یہ رنگین تہوار وادی بیریر میں اختتام پذیر ہوئی  جس میں کافی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے شرکت کی۔

Print Friendly, PDF & Email