چترال کے فارمی شہدکا کاروبار بھی کورونا کی وجہ سے متاثر

چترال (زیل نمائندہ)چترال کا فارمی شہد ملک بھر میں اپنے مخصوص ذائقے اور انفرادیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس علاقے کے دوردراز مقامات پر فارمی شہد کی صندقیں دکھائی دیں گی جن پر شہد کی مکھیاں کثیر تعداد میں نظرآئیں گی ۔ موسم بہار سے لے کر خزاں کے آخرتک مقامی اور غیر مقامی شہد کے کاروبار سے منسلک افراد جگہ جگہ صندوق رکھ کر اپنا کاروبار جماتے ہیں۔ یہ شہد محتلف مراحل سے گزر  شہد کی مکھیوں کے ذریعے کر تیار ہوتا ہے۔شہد جنگل میں بھی قدرتی طور پر پایا جاتا ہے مگر آج کل اسے فارم کے اندر مکھیوں کے ذریعے تیار کروایاجاتا ہے۔ لکڑی سے بنے ہوئے صندوق نما پیٹیوں میں ان شہد کی مکھیوں  پالا جاتا ہے اور یہ پیٹیاں ایسی جگہہ رکھی جاتی ہیں جہاں آس پاس درخت اور پودوں میں  پھول موجود ہوں کیونکہ یہ شہد کی مکھیاں ان پھولوں کا رس چوس کر پیتی ہیں اور اس سے شہد بنتا ہے۔ایک ماہ بعد ان چھجوں کو پیٹیوں سے نکال کر ایک خاص مشین میں ڈالتے ہیں اور اسے تیزی سے گما کر  ہوا کی دباؤ کی مدد سے اس سے شہد نکالا جاتا ہے جو ایک ٹپکہ میں بھر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو محتلف برتنوں میں پیک کرکے بیچ دیا جاتا ہے۔کورونا وائرس کے بعد دنیا بھر میں جو  وباء پھیلی تھی اس سے جہاں دیگر کاروبار متاثر ہوئے  وہاں اس سے شہد کی صعنت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ چترال کے بالائی علاقے میں ایک قدرتی جنگل کے قریب رکھے ہوئے شہد کی مکھیوں کا رکھوالا رسول خان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چالیس سالوں سے یہ کاروبار کررہا ہے اور ہر سال شبقدر ضلع چارسدہ سے یہ مکھیاں چترال لاکر پالتا ہے مگر اس سال بری طرح متاثر ہوا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ ان مکھیوں کو کہیں پھولوں کے قریب نہیں لے جاسکے جہاں ان کو خوراک ملتا ہے اور ان کو گھر پر رکھ کر جیب سے خوراک دینا پڑا۔ان  کامزید کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا سے متاثرین لوگوں کے لیے  امداد تو آیا مگر شہد کے کاروبار کرنے والے لوگوں کو کچھ بھی نہں ملا۔ رسول خان نے انکشاف کیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کو پچاس لاکھ روپے کا نقصان کا سامنا ہوا اور دوسری جانب پولیس بھی ہمیں تنگ کررہی ہے۔رسول خان نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ مالی طور پر مدد کی جائے یا ان کو بلا سود قرضہ دیا جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔ کیونکہ  موسم خزاں اور سردیوں میں جب درختوں کے پتے جڑ جاتے ہیں وہ ان مکھیوں کو گھر میں رکھ کر ان کو لاکھوں روپے کا چینی کھلاتا ہے تاکہ یہ مکھیاں کہیں اور نہ جائے اور صرف چند ماہ ان کا سیزن ہوتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email