اوچھال تہوار کالاش گوم میں اختتام پذیر

بمبوریت(زیل نمائندہ)کالاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار اوچھال اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ وادی کالاش میں اختتام پذیر ہوا۔ اس تہوار کو کالاش قبیلہ سال کے درمیان میں مناتے ہیں جو اکثر گندم کی کٹائی کے بعد منعقد ہوتا ہے۔  اوچھال تہوار میں کالاش لوگ دودھ سے بنی ہوئی چیزیں  جن میں پنیر( پھیناک، شوپھیناک) وغیرہ  لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔  اس مرتبہ کافی تعداد میں بیرون اور اندورن ملک سیاح اس تہوار کو دیکھنے کے لیے کالاش وادیوں میں موجودتھے۔  اس موقع پر ہمارے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کالاش دوشیزہ آرمینہ کا کہنا تھا کہ اس تہوار میں لڑکے ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ لڑکیاں اکھٹے رقص  پیش کرتی ہیں اور گیت گاتی ہیں۔ ان کا مزید  کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں اور دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ برطانیہ سے آئی ہوئی ایک خاتون سیاحCharlotte Hophinsen کا کہنا ہے کہ مجھے یہا ں آکر بہت مزہ آیا اور ہمیں چاہئیے  کہ ہم کالاش ثقافت کو محفوظ رکھیں  اسے ختم نہ ہونے دے کیونکہ انہی تہواروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح  یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اوچھال تہوار میں وادی کے لوگ پھول اور پتے اکھٹے کرکے ماتم زدہ گھروں میں جاتے ہیں جہاں فوتگی ہوئی ہو اور اس طرح پھول ان کے ہاتھوں میں دے کر سوگ ختم  کرکے وہ لوگ بھی ان کے رسم میں شریک ہوتے ہیں۔ کالاش لوگ اکثر رات کو بھی رقص کرتے ہیں اور چراغاں ہاتھوں میں لے کر چرسو  آتے ہیں جہاں وہ رقص کرتے ہیں۔ وہ  اپنے ساتھ پنیر وغیرہ بھی لاتے ہیں اور اسے نہ صرف کالاش لوگوں کو دی جاتی ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اوچھال تہوار کے موقع پر رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کالاش کا کہنا ہے کہ اس موقع پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں  جو ہمیں اتنی نعمتیں دی ہیں اور خصوصی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔  وزیر زادہ نے اس موقع پر دنیا بھر اور خصوصی طور پر پڑوسی ملک ہندوستان کو پیغام دیا کہ اگر کسی نے اقلیتوں کے ساتھ محبت، رواداری اور نرمی دیکھنی ہو تو  وہ پاکستان آکر کالاش لوگوں کے مسلمانوں کا شفقت دیکھے اور اس سے سبق حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کالاش بہت قلیل تعداد میں ہے مگر مسلمان بھائیوں کی شفقت اور ان کی مہربانی سے ہم اپنے تمام مذہبی رسومات نہایت آزادی  کے ساتھ مناتے ہیں۔اوچھال تہوار میں چترال کے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور انتظامیہ کے افسران نے بھی شرکت کی  جن کی آمد پر کالاش روایات کے مطابق ان کو زرق برق کے رنگین چوغے پہنائے گئے جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔ اوچھال کا تہوار کو دیکھنے کے لیے  کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح وادی کالاش پہنچ چکے تھے مگر اکثر سیاحو ں نے  وادی کی خراب سڑکوں اور سہولیات کے فقدان کی شکایت کیں۔ اس بات کو ایم پی اے وزیر زادہ نے بھی تسلیم کیا کہ پہلے غیر ملکی سیاحوں پر این او سی لینے کی شرط تھی جس کی وجہ سے یہاں کی سیاحت تباہ ہوا تھا اب  وہ شرط ختم ہوگئی مگر سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ جب کوئی سیاح یہاں ایک بار آتا ہے تو دوبارہ آنے سے گریز کرے گا۔

Print Friendly, PDF & Email