فرحان کی موت میں غفلت کے مرتکب ڈاکٹروں کے خلاف تین سال میں  کوئی کاروائی نہ ہوسکی

چترال (زیل نمائندہ)تین سال پہلے ڈاکٹرو ں کی مبینہ غفلت کی وجہ سےصحافی گل حماد فارقی  کے بیٹے محمد فرحان کی موت واقع ہوئی تھی۔اس غفلت میں مرتکب ڈاکٹروں کے خلاف تین سال گزرنے کے باؤجودبھی محکمہ صحت کے ارباب احتیار نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل (PMDC) اسلام آباد کے ڈسپلنری کمیٹی کے  اجلاس جو 2جولائی 2019 کو منعقد ہوا تھا  جس میں ڈاکٹر  محمد فیاض ڈسٹرکٹ چلڈرن سپیشلسٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال  ضلع ہنگو کا لائسنس چھ ماہ کے لیے، ڈاکٹر جہانگیر کا لائسنس چھ ماہ کے لیے  اور ڈاکٹر اکرام الدین اسسٹنٹ پروفیسر  پیڈیاٹرک سرجری (کنسلٹنٹ) لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا لائسنس ایک سال کے لیے پی ایم ڈی سی لٹر نمبر PF.8-1411/2016-Legal/317967مورحہ 11.06.2019 کو معطل کیے گئے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے MTI نے  لیٹر نمبر1840/LRH/PA مورخہ 26.06.2019کے تحت ڈاکٹر اکرام الدین کنسلٹنٹ چلڈرن سرجیکل یونٹ کی ملازمت کو ایک سال کے لیے معطل کیا گیا ۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے فیصلے مطابق جن ڈاکٹروں کے لائسنس معطل کیے گئے وہ اس دوران  نہ تو سرکاری ہسپتال میں کسی مریض کا معائنہ کیا اور نہ نجی کلینک میں کام ۔ ہیلتھ ریگولٹری اتھارٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ ان ڈاکٹروں کا کلینک سربمہرSeal کردے تاکہ مریضوں کا معائنہ نہ کرسکے۔

فرحان کی موت میں اس کا والد سینئر صحافی گل حماد فاروقی نے تین مرتبہ سیشن کورٹ اور ایک مرتبہ پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرکے باقاعدہ کیس دائر کیا۔ عدالتی حکم پر چھے ڈاکٹروں نے عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت (BBA) حاصل کی جن میں  حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے سرجیکل اے یونٹ کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر مظہر خان، نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال کے ڈاکٹرارشاد آفریدی، ڈاکٹر سپین گل، ڈاکٹر اعجاز چترالی، ڈاکٹر محمد ذہین  اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر کفایت خان نے عدالت سے ضمانت حاصل کی۔ چار ڈاکٹر بار بار نوٹس کے باؤجود عدالت میں حاضر ہوئے نہ پولیس کو گرفتاری پیش ی۔اس صورت حال پر پولیس کے تفتیشی افسران نے عدالت سے رجوع کیا اور معززسول جج XV کی فاضل عدالت نے2 اگست 2019 کو ڈاکٹر اصغر نواز، ڈاکٹر محمد فیاض ولد محمد آیاز ڈسٹرکٹ چلڈرن سپیشلسٹ DHQ ہستپال ضلع ہنگو، ڈاکٹر جہانگیر اور ڈاکٹر محتیار زمان کو اشتہاری قراردیکر ان کو حکم دیا کہ وہ مورخہ 02 ستمبر 2019 کو عدالت میں پیش ہوں۔ متعلقہ پولیس نے ان اشتہاری مجرمان کے اشتہارات ہسپتال کے مین گیٹ، نوٹس بورڈ  اور شاہراہ عام پر بھی چسپاں کردیا مگر تاحال ان اشتہاری  ملزمان نے ابھی تک نہ تو پولیس کو گرفتاری دی ہے اور نہ ہی عدالت سے رجوع کیاہے ۔ اس سلسلے میں تھانہ خان رازق شہید کے تفتیشی آفیسر خلیل الرحمان خان سب انسپکٹر، اور تھانہ کے ایس ایچ او سے بھی رابطہ کیا گیا جنہوں نے اس بات کی تصدیق کرلی۔

محمد فرحان کے والد گل حماد فارقی کے مطابق  28 جولائی 2016 کو  دوپہر کے وقت ان کے بیٹے کے پیٹ میں شدید درد محسوس ہوااور ساتھ ساتھ الٹی آئی۔ اس دوران اسے   گھر کے قریب اخونزادہ  ویلفئیر کلینک کے ڈاکٹر عمران کو دکھایا گیاجس نے درد کی دوا لکھ کر اسے گھر بھیج دیا مگر افاقہ نہ ہونے کی صورت میں اسے 29 جولائی کو نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال کوہاٹ روڈ پشاور لے جایا گیا جہاں کیجیولٹی میں ڈاکٹر ارشاد افریدی نے اسے درد کا انجکشن لگاکر گھر بھیج دیا مگر درد زیادہ ہونے کی صورت میں اسے دوبارہ اسی ہسپتال میں صبح نو بجے چلڈرن او پی ڈی لے جایا گیاجہاں ڈاکٹر سپین گل نے اسے الٹر ساؤنڈ کے لیے  بھیجا اور ڈاکٹر اعجاز چترالی نے الٹرا ساؤنڈ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ نارمل ہے۔ اسے گھر لایا گیا مگر30 جولائی2016 کو اسے مزید درد ہونے لگا جسے فوری طور پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے کیجیولٹی  یونٹ لے گیا جہاں ڈاکٹر جہانگیر اسے چلڈرن سرجیکل یونٹ ریفر کیا مگر پیڈیاٹرک سرجیکل یونٹ میں ڈاکٹر جہانگیر نے اس کا ایکسرے کرکے اسے معمولی بیماری  قراردیکر گھر بھیج دیا۔ اسی دن رات گیارہ بجے محمد فرحا ن کو شدید درد ہونے لگا اور چھوٹا پیشاب بھی بند ہوا جسے فوری طور پر LRH لے جایا گیا اور رات کو بھی صبح والا ڈاکٹر یعنی جہانگیر ڈیوٹی پر تھا اس نے ایک بار پھر اسے چلڈرن سرجیکل یونٹ کو ریفر کیا  جہاں ڈاکٹر اصغر نواز، ڈاکٹر محمد فیاض، ڈاکٹر جہانگیر وغیرہ ڈیوٹی پر معمور تھے انہوں نے رات ایک بجے فرحان کو دوبارہ گھر بھیجا اور اس کا نہ آپریشن کیا نہ داخل کروایا گیا۔2اگست کو اسے حیات آباد میڈیکل کمپلکس صبح او پی ڈی لے جایا گیاجہاں انکشاف ہوا کہ اس کا اپنڈکس پھٹ گیا ہےاور اسے سرجیکل اے یونٹ میں داخل کیا گیا۔ فرحان کے والد  کے مطابق  ڈاکٹر صدیق  احمد چترالی کو فون کرکے درخواست بھی کی کہ اس کے بیٹے کا اپنڈکس پھٹ چکا ہے اور فوری طور پر اس کی آپریشن کا بندوبست کیا جائے جس نے یقین دہانی تو کرائی مگر ہسپتال جاکر مریض کا معائنہ تک نہیں کیا۔شام کے بعد کافی دیر بعد فرحان کا آپریشن چند جونیر ڈاکٹروں نے کی جو ناکام ہوا اور اسے ICU ریفر کیا گیا مگر انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بیڈ خالی نہیں تھی اسے اگلے دن خیبر ٹیچنگ ہسپتال KTH لے جایا گیا جہاں وہ ایک گھنٹے کے بعد انتقال کرگئے۔ مرحوم کے والد نے متعلقہ تھانوں، ایس پی کینٹ، ایس پی سٹی، انسپکٹر جنرل آف پولیس کو درخواست دی مگر ڈاکٹروں کے خلاف FIR درج نہیں کیا گیا جس پر اس کے والد نے عدالت سے رجوع کیا۔عدالت نے حکم دیا کہ ان ڈاکٹروں  کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے مگر اس باؤجود پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا اس کے بعد ایس ایچ او تھانہ خان رازق شہید  کے ایس ایچ او انسپکٹر محمد نور کے حلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا جس پر اس نے ایف آئی آر تو درج کیا مگر کسی ملزم کا نام تک درج نہیں کیا اور ہسپتال کے عمارت پر مقدمہ درج ہوا۔ اس  کے بعد اس کے والد نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن جمع کی۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس ابراہیم اشتیاق پر مشتمل ڈویژنل بنچ  نے حکم سنایا کہ ان ڈاکٹروں کے حلاف مقدمہ درج کیا جائے اور ایس ایس پی آپریشن کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ ایس ایچ او کے حلاف قانونی کاروائی کرے کہ اس نے کیوں بروقت مقدمہ درج نہیں کیا اور PMDC کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ان  ڈاکٹروں کے حلاف قانونی کاروائی کرے۔

فرحان مرحوم کے والد گل حماد فاروقی نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ شعبہ صحافت سے پچیس سالوں سے وابستہ ہے مگر اتنی کوشش کے باؤجود اسے انصاف نہیں ملا۔ محکمہ صحت کے سیکرٹری، ڈی جی  اور وزیر اعلےٰ کو بھی متعد د درخواستیں دئے مگر ابھی تک ان ڈاکٹروں کے حلاف کوئی کاروائی نہ ہوسکی۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں از خود نوٹس لے اور غفلت کے مرتکب ان ڈاکٹروں کو  قرار واقعی سزا دلوادیں تاکہ آئندہ کسی اور کے ساتھ اس قسم کا زیادتی نہ ہو۔

Print Friendly, PDF & Email