چترال کے لینڈ ریکارڈ میں ٹیمپرینگ  یعنی جعلی سند رکھنے کا انکشاف

چترال(زیل نمائندہ )چترال کے بالائی علاقے جونالی کوچ میں اربوں مالیت کی زمین کو اپنے نام کرنے کی ناکام کوشش  بے نقاب ہوا۔ گلگت بلتستان کے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ کے کارندوں نے چترال کے جوڈیشل کونسل میں بھی سر شجاع الملک کے نام سے ایک جعلی سند ریکارڈمیں رکھنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سید اکبر حسین جن کے آباء و اجدا جونالی کوچ چترال سے گلگت بلتستان کے ضلع غذر یاسین منتقل ہوئے تھے نے صحافیوں کو بتایا کہ گلگت بلتستان کے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ  رشتے میں اس کا چا چا لگتا ہے اور جونالی کوچ میں اربوں روپے کی زمین میں سے مجھے محروم کرکے وہ اسے صرف اپنے نام انتقال کرنا چاہتے ہیں۔ سید اکبر حسین کے مطابق  سید جلال علی شاہ نے  نیشنل آرکائیو لائبریری پشاور میں بھی چترال کے سابق حکمران  سر شجاع الملک سے منصوب ایک سند رکھ کر اسے چیف لائبریرین  شاہ مراد چترالی سے  تصدیق (اٹیسٹ) بھی کروایا جس میں جعلی طور پر یہ تحریر تھا کہ  جونالی کوچ والی زمین  کو شجاع الملک نے اس کے بزرگ پیر جلالی شاہ کے نام ہبہ کیا ہے یعنی یہ زمین اسے حوالہ کیا گیا ہے۔

اس کے بعد  میں نے لینڈ سٹلمنٹ آفیسر چترال کے دفتر میں تحریری درخواست دی کہ اس سند کے بابت تحقیقات کی جائے۔ جب انہوں نے پشاور کو اس سلسلے میں ایک خط لکھا تو  اس کے جواب میں 29 اپریل 2019 کو ڈائریکٹر  آرکائیوز اینڈ لائبریری نے جواب دیا کہ اس نام کے کسی سند کا ہمارے ریکارڈ کے بنڈل نمبربارہ سے بائس تک کوئی وجود ہی نہیں ہے مگر اس نے اپنے افسر کو بچانے کے لیے یہ لکھا کہ شاید چترال کے لینڈ سٹلمنٹ افسر نے ریفرنس نمبر غلط لکھا ہو مگر اس کے بعد اس پر کوئی خط و کتاب یا کاروائی نہیں ہوئی۔

اکبر حسین کے مطابق  سابق گورنر کے بیٹے سید جلال شاہ نے چترال میں اپنے  ایک کارندے  محمد علی شاہ کے ذریعے ڈپٹی کمشنر کے زیر تسلظ جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند نہایت ہوشیاری سے رکھی اور اسے ریکارڈ کیپر سے تصدیق بھی کروایا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جعلی ہے تو جوڈیشل کونسل چترال کے ریکارڈ کیپر شیر احمدخان نے ڈپٹی کمشنر کو  باقاعدہ تحریری درخواست دیا کہ محمد علی شاہ نامی شحص نے جوڈیشل ریکارڈ میں ایک جعلی سند رکھ کر جونالی کوچ والی زمین پیر کرم علی شاہ گورنر کے نام ہتھانے کی کوشش کی ہے۔

ہمارے نمائندے نے باقاعدہ طور پر اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے شیر احمد خان سے بھی پوچھا جنہوں نے اس درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں انے اپنے نائب قاصد سے پوچھا بھی تھا کہ آیا جس سند کی فوٹوسٹیٹ لایا گیا ہے اس کا اصل ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے کہ نہیں تو اس نے جواب ہاں میں دیا ۔ مگر جب وہی شحص دوبارہ آیا اور اس کی مصدقہ کاپی مانگاتو میں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ جعلی ہے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست لکھا جسے ایڈیشنل کمنشر فیاض قریشی کے حوالہ کیا گیا۔

سید اکبر حسین  نے مزید بتایا کہ وہ انکوائری اپریل میں شرو ع ہوئی تھی مگر چونکہ گورنر صاحب ایک تو سیاسی طور پر نہایت مضبوط شحص ہے اور مالی طور پر بھی مستحکم ہے تو سفارش اور پیسے  کی  وجہ سے وہ انکوائری چار مہینے تک لٹکتی رہی۔

اکبر حسین نے بتایا جب مجھے پتہ چلا کہ وہ انکوائری رپورٹ 24 جولائی کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیجا گیا تو میں نے ڈپٹی کمشنر کو باقاعدہ تحریری درخواست دی کہ اس انکوائری کی ایک مصدقہ کاپی مجھے معلومات تک رسائی ایکٹ 2014 کے تحت دی جائے تو انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو لکھ کر ہدایت کی کہ اس کی نقل مجھے فراہم کی جائے مگر جب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا تو انہو ں اس کی نقل دینے سے صاف طور پر انکار کیا میں نے جب اسے یہ کہا کہ میں اس  بابت پریس کانفرنس کرکے حکومت کے نوٹس میں لاؤں گا تو ان کا جواب تھا کہ آپ صدر پاکستان  کے پاس بھی جاؤں گے تب میں اس کی نقل نہیں دوں گا۔اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے ڈپٹی کمشنر سے فون پر بات کرکے تصدیق چاہی تو ڈی سی نے اسے اپنے دفتر بلایا۔ہمارا نمائندہ باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر جاکر اس کا موقف جاننا چاہا تو ڈپٹی کمشنر نے کسی قسم کی انٹرویو یا بات کرنے سے انکار کیا۔ ہمارے نمائندے نے اسے یہ بھی بتایا کہ یہ Right To Information Act 2014 کی خلاف ورزی ہے  تو اس کے باوجود وہ بات کرنے کو تیار نہیں تھے کہ میں نیا آیاہوں مجھے کوئی پتہ نہیں تاہم انہوں نے اکبر حسین کے درخواست پر لکھ کر دیا کہ اسے اندرونی نقل فراہم کی جائے مگر اے ڈی سی چھٹی پر ہے ابھی تک وہ نقل موصول نہیں ہوئی۔

ہمارے نمائندے نے اس سلسلے میں ریکارڈ کیپر شیر احمد خان کا انٹرویو کرنا چاہا توا س کا جواب تھا کہ وہ اپنے افسران بالا سے اجاز ت لیکر پھر انٹر ویو دے گا۔جب ہمارے نمائندے نے جوڈیشل کونسل اور محافظ خانہ کی دفتر کی ویڈیو بنانا چاہی تو اسے روک دیا گیا کہ اس کیلئے بھی ڈی سی کا اجازت چاہئے

اور اسکے بعد شیر احمد خان  نے ایکٹنگ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حیات شاہ سے فون پر بات کرے اجازت مانگی مگر اسے اجازت نہیں ملی۔ اس کے بعد ہمارے نمائندے نے خود اس سے بات کرکے اجازت مانگی کہ وہ صرف اس سرکاری عمارت کا جو پبلک پلیس ہے اس کا ویڈیو کرنا چاہتا ہے تو اس نے انکار کیا۔ ہمارے نمائندے نے اس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر چترال عالمگیر خان کو باقاعدہ تحریری درخواست دی کہ وہ جوڈیشنل کونسل کا وزٹ کرنا چاہتاہے اور اس کا ویڈیو کرنا چاہتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ یہ دونوں  دفاتر ڈپٹی کمشنر کے زیر نگرانی ہیں میں کچھ نہیں کرسکتا۔

اس کے بعد ڈپٹی کمشنر چترال جو چھٹی پر گئے تھے اس کے واٹس اپ نمبر پر باقاعدہ پیغام بھیجا گیا کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ ان دونوں عمارتوں کا صرف ویڈیو بنائے مگر کوئی جواب نہیں ملا۔اس بات کو رائٹ ٹو انفارمشین کمیشن کے ایڈمن آفیسر اور چیف کمشنر رائٹ ٹو سروس کمیشن اور سیکرٹری بلدیات کے نوٹس میں بھی لایا گیا۔سید اکبر حسین نے الزام لگایا کہ چونکہ گورنر صاحب بہت با اثر آدمی ہے یہی وجہ ہے کہ چترال کا انتظامیہ بھی اس کے کہنے پر انصاف کے راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور میڈیا کو بھی کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتی۔انہوں نے اپنے دلیل میں اسناد پیش کئے جس میں سابقہ لینڈ سٹلمنٹ آفیسر شاہ نادر کے وقت میں باقاعدہ انکوائری ہوئی تھی اور تحصیلدار نے اپنے سفارشات میں لکھا تھا کہ سید اکبر حسین شاہ کو بھی شجرہ نسب میں شامل کیا جائے اس انکوائری کا مفہوم یہ تھا کہ اکبر حسین شاہ جونالی کوچ والی زمین برابر کا حقدار ہے۔

اس سلسلے میں جب ہمارا نمائندہ لینڈ سٹلمنٹ آفسیر سید مظہر علی شاہ کے پاس جاکر اس کاموقف لینے کی کوشش کی تو مظہر علی شاہ نے تحریری طور پر اپنا موقف دیتے ہوئے لکھا کہ درخواستی نے تین درخواستیں اس دفتر میں جمع کئے تھے ایک اپنے نام پر، دوسرا اپنے بیوی کے نام پر اور تیسرا اپنے رشتہ دار رضوان کے نام پر جن میں دو درخواستیں تو منظور ہوئی مگر اکبر حسین  شاہ کا درخواست اس لیے مسترد کیا کہ وہ دور کا رشتہ دار ہے۔ مزید انہوں نے تحریری طور پر دیا کہ موجودہ بندوبستی ریکارڈ کے مطابق جونالی کوچ میں   سید اکبر حسین شاہ کا کوئی جائداد نہیں ہے  تاہم اگر وہ کسی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لائے یا سر شجاع الملک کی طرف سے منصوب سند مورحہ 18.02.1929 جو آرکائیو لابیریری پشاور میں جمع کیا گیا اسے جعلی ثابت کرے تو  پھر بندوبستی ریکارڈ میں حسب ضرورت ترمیم ہوسکتی ہے۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ جب آپ نے اسی سند کی تصدیق کیلئے آرکائیو لایبریری کو لکھا تو ان کا جواب تھا کہ اس نام کا کوئی سند اس بنڈ ل میں موجود نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ سند جعلی ہے  تو ان کا جواب تھا کہ شائد وہ سند کسی اور بنڈل میں موجود ہو۔سید اکبر حسین شاہ نے اس پر بھی الزام لگایا کہ وہ بھی گورنر صاحب کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ایک جعلی سند کے بناء پر جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے وہ اسے اپنے موروثی زمین سے محروم کر رہاہے۔ انہوں نے سر شجاع الملک کا ایک اصلی سند میڈیا کو دکھایا جسے کسی اور شحص کو دیا گیا تھا جس پر باقاعدہ  ایک مہر بھی لگا تھا اور اس کا سند کا طریقہ کار ہی محتلف تھا۔

سید اکبر حین نے نہایت مایوسی کا اظہار کیا کہ اس نے سنا تھا کہ خیبر پحتون خوا میں انصاف ہے اور نئے پاکستا ن میں حق دار  کو ضرور حق ملے گا مگر یہاں تو آوے کا آواں بگڑا ہوا ہے۔ اور اسے طویل عرصے تک کوشش کے باوجود انصاف نہیں ملا۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعظم  عمران خان اور وزیر اعلےٰ محمود خان کے ساتھ ساتھ وزیر مالیت شکیل خان سے بھی پرزور اپیل کی ہے کہاس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل انکوائری کی جائے جس میں نہایت ایماندار غیر مقامی افسران ہو تاکہ ان جعلی سندوں کا کھوچ لگائے اور اس زمین کو مافیا کے چنگل سے واہگزار کرے ۔انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس جعل سازی میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا دلوایا جائے تاکہ آئندہ کوئی اور شحص اتنی دیدہ دلیری سے جعل سازی نہ کرے۔

Print Friendly, PDF & Email