ٹرک کی بتی اور انسانی ریوڑ

بہت زیادہ گھٹن ہے، دل بہت کچھ کہنے کو چاہتا ہے مگرہم سب ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر بے قصور سزا پاتے ہیں اور قصوروار دھن دھناتے پھرتے ہیں، آپ جتنے بڑے مجرم ہیں اتنی ہی عزت کی جاتی ہے اور آپ جتنے ایماندار ہیں اتنی ہی بے بس و بے کس، اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کی ہم جتنی کوشش کرتے ہیں اتنے ہی اس میں دھنستے چلے جاتے ہیں، قدرت بھی ہمیں باربار مواقع فراہم کرتی ہے کہ اس غیر انسانی ماحول سے نکل آئیں مگر اقتدار کی راہداریوں پر جن کا قبضہ ہے وہ ہمیں اس سے نکلنے نہیں دیتے،ہمیں خود احساس ہی نہیں ہے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں یا پھر کیوں جی رہے ہیں،اس لیے بھی کہ ہم قوم کے بجائے ایک ہجوم بن گئے ہیں، شاید ہجوم کا لفظ بھی صحیح نہیں رہے گا، بلکہ ہم ایسی ریوڑ کی مانند ہیں جنہیں آپ جدھر ہانکیں وہ ادھر چلنا شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے مقتدر حلقوں کے پاس بے شمار ٹرک اور لاتعداد بتیاں ہیں اور وہ ان کا استعمال بخوبی کیا کرتے ہیں، معاشرے کے افراد آگاہی اور شعور سے روشناس ہونے لگتے ہیں، سکھ اور سکون کا سانس لینا شروع کرتے ہیں یا پھر عوامی سطح پرکسی تعمیری کام کا آغاز ہونے لگے، تو یہ حلقے ایک ٹرک بتی سمت آگے کردیتے ہیں پھر کہاں کا شعور اور کونسی آگاہی، ہمارا ریوڑ اس بتی کے پیچھے سالوں چلتا رہتا ہے،جب آپ ٹرک کی بتی کے قریب پہنچ جاتے ہیں یا پھر آپ کو یہ خواب دیکھایا جاتا ہے کہ آپ اور ٹرک کی بتی میں بس لمحوں کا فاصلہ رہ گیا ہے کہ یکایک ٹرک کی بتی بجھا دی جاتی ہے مگر ٹرک کی بتی بجھانے سے پہلے کچھ اس زور شور سے بھڑکیں ماری جاتی ہیں، جس سے عوام کو لگنے لگتا ہے کہ ملک، اداروں اور عام عوام کے تمام مسائل کا حل بس اس ٹرک کے ساتھ وابستہ ہے اگر یہ ٹرک چھوٹ گیا تو ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ہماری آنی والی نسلیں برباد ہوجائیں گے، ملک شدید بحران کا شکار ہوجائے گا مگر ستر سالوں سے پتہ نہیں ہمارے کتنے ٹرک بتی سمیت غائب ہوچکے ہیں، مگر ہوا کچھ بھی نہیں، نہ عوامی سطح پر کوئی بیداری دیکھنے کو ملی نہ ہی مقتدر حلقوں کو شرم آئی، بلکہ دوسری ٹرک اتنی جلدی منظر پر لائی جاتی ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے نئے ٹرک کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
یہ کہنا فضول ہوگا کہ اس ٹرک بتی کے کھیل میں کسی کو کچھ نہیں ملا، ملک کا دو فیصد ایلیٹ کلاس اس سارے کھیل سے اس انداز سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے کہ بیان کرنا مشکل، ہمارا ملک ان افراد کے لیے ایک فارم ہاؤس کی مانند ہے جہاں وہ چھٹیاں گزارنے اور حکومت کرنے کے لیے تشریف لاتے ہیں ، وہ بھی باری باری، جس کی باری ہو وہ ہم پر حکمرانی اور بیرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافے میں لگ جاتا ہے، دوسرا گروہ اپنی باری کے لیے سال پہلے سے ہی تیاری شروع کرتا ہے، سیاسی تقرریوں اور اقتدار پر قبضے کے لیے تیاری کے دوراں ایسے ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ ایک کم مہذب بندہ بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے،ان گروہوں کے کارندے بھی لاجواب ہوتے ہیں وہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، بس آقا کے منہ سے جو کچھ بھی نکل آئے چاہے وہ عالم سُرور کے دوران نکلا ہوا کوئی ہیجان ہی کیوں نہ ہووہی ان کا نظریہ ہوتا ہے، جس سیاسی گروہ کے ساتھ وابستہ ہیں اس گروہ کے سربراہ کی شان میں قصیدہ گوئی، ان کے تمام جرائم پر پردہ ڈالنا، قسمیں کھانا کہ ان کے آقا سے زیادہ ایماندار اس روئے زمین پر کوئی دوسرا فرد موجود نہیں وہ ایسا تماشا لگا رہے ہوتے ہیں کہ بظاہرلگ رہا ہوتا ہے کہ اگر اس خاندان سے اقتدار چھین کر کسی اور کے حوالے کیا گیا تو ملک کیا چیز ہے دنیا کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوجائے گا حالانکہ اصل خطرہ صرف ان درباریوں کے ذاتی مفادات کو ہوتا ہے مگر ریوڑکو کون سمجھائے کہ جس دن یہ ٹرک بتی کا کھیل ختم ہوا اس دن ملک اور عوام کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے