ائمہ کے لیے اعزازیہ اور چند حقائق

گزشتہ دو ڈھائی مہنیوں سے جہاں اخبارات ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا میں گورنمنٹ آف پختونخوا کے ائمہ کے لیے اعزازیہ کے اس اقدام بہت زیادہ سراہا جا ر ہا ہے وہاں کچھ لوگ ائمہ کے لیے ماہانہ دس ہزار اعزازیے کو ائمہ کے ساتھ مذاق قرار دے کر اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں چونکہ خیبر پختونخوا حکومت یہ قدم ایسے وقت اٹھانے جا رہی ہے جب الیکشن کے لیے صرف چند مہینے ہی رہ گئے ہیں جو لوگ اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی رشوت ہے اور کے پی کی حکومت انتخابات کے قریب قریب طرح طرح کی پیکجز کے ذریعے ووٹ بنک بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ اس اقدام کے حامی اس کو خالص علماء کرام کی عزت افزائی، حوصلہ افزائی اور ان کے لیے حکومت کی طرف سے اعزازیہ قرار دے رہے ہیں۔
اب آتے ہیں ان لوگوں کی طرف جو بلا وجہ اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ مخالفت کرنے کی بجائے کوشش یہ کرنی چاہئیے کہ حکومت آئمہ کرام کے لیے یہ وظیفہ یا اعزازیہ مستقل بنیادوں پر جاری کرے تاکہ آنے والی حکومتیں اپنے ووٹوں کے لیے علماء کو ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرے ۔یہ اعزازیہ اگر کے پی کے گورنمنٹ دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرے اور ان کو کسی ادارے کے ساتھ منسلک کرکے دیگر سرکاری ملازمین کی طرح ائمہ کرام کو بھی تنخواہیں اور پنشن مقرر کرے۔ اگر حکومت یہ سب کرنے کے لیے تیار ہے تو پھر اس اقدام کو سراہنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں اگر ہم حکومت کے اخلاص اور اسلام پسندی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے تو یقینی طور ہمیں مایوسی ہوگی کیونکہ اگر حکومت علماء کا اتنا سوچتی ہے اور ان کی بہتری کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہی ہے تو حکومت کو چاہئیے کہ پہلے ان علماء ائمہ اور خدام کی خبر لیں جو پہلے سے حکومتی ادارہ اوقاف کے ساتھ منسلک ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟کہ محکمہ اوقاف میں ائمہ کی تنخواہیں کیا ہیں ؟ ان کو کیا کیا مراعات حاصل ہیں ؟ اور سالانہ کی بنیاد پر ان کی سیلری اور سکیل میں کتنا اضافہ ہوتا ہے ؟ یہ سب جان کر آپ حیران ہوں گے کہ حکومت جو اوقاف کے مساجد سے وابستہ چند ہزار ائمہ اور خادمین کو پریشان کر رکھی ہے وہ پورے صوبے کے ائمہ کے لیے وظائف نیک نیتی کی بنیاد پر مقرر کر رہی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے اس اقدام میں سیاسی چال بازی سے بڑھ کر کوئی سنجیدگی نہیں اگر واقعی حکومت علما اور ائمہ کو نوازنے میں سنجیدہ ہے تو پھر دیگر ائمہ اور خادمین کو چھوڑیں بلکہ پہلے ان آئمہ کی خبر لیں جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ محکمہ اوقاف کے پاس صوبے کے بڑے بڑے پارک بازار تفریحی مقامات اور بڑی مساجد ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ محکمہ اوقاف خیبر پختونخوا اوقاف کے دیگر ملازمین کی تنخواہیں بھی وقت پر دے رہی ہے ۔ان کا پروموشن بھی باقاعدگی کے ساتھ ہو رہا ہے ۔تنخواہوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن صرف مساجد و مدارس سے منسلک آئمہ و خادمین کی تنخواہیں کبھی مہینے کے شروع میں نہیں ملتی۔ ایک طرف تو ان کی تنخواہیں کم ہیں ۔دوسری طرف وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی ۔محکمہ اوقاف سے وابستہ اکثر ائمہ حکومت کے اس رویے سے تنگ آگئے ہیں۔ پندرہ بیس سال تک بطور امام ملازمت کرنے والے کا سکیل 12 سے آگے نہیں بڑھتا اور تنخواہیں صرف بیس ہزار جبکہ سرکار کے تمام قواعد و ضوابط کی پاسداری ان پر لازم ہے۔ مزے کی بات بتاؤں کہ آج جنوری کی اٹھائیس تاریخ ہے اور محکمہ اوقاف خیبر پختونخوا کے ائمہ اور خادمین کی پہلے ماہ کی تنخواہیں ابھی تک نہیں ملی ہیں جبکہ دوسرا مہنیہ ختم ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں ۔میری گزارش حکومت خیبر پختونخوا اور وزیر اعلی ٰجناب پرویز خٹک سے یہ ہے کہ تمام آئمہ کو مصیبت میں ڈالنے سے پہلے ان علما کو راضی کرے جو پہلے سے سرکار کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ۔ان کی تنخواہیں وقت پر ادا کرنے کا بندوبست کرے۔ ان کی تنخواہوں میں دیگر ملازمین کی طرح سالانہ اضافہ کیا کرے ۔ان کے سکیلز بھی بارہ سے آگے بڑھانے کا سوچیں جب دیگر ملازمین کی تنخواہیں وقت پر دی جاتی ہیں۔ تو آئمہ کی تنخواہیں کیوں نہیں دی جاتی ؟کیا آئمہ کے گھروں میں چولہا نہیں چلنا ؟ کیا ان کی ضروریات نہیں ہیں؟ اگر حکومت علما کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہے اور واقعی اسلام پسند ہے تو پھر محکمہ اوقاف کے آئمہ و خادمین کا پہلے حق بنتا ہے کہ حکومت ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے جب تک محکمہ اوقاف خیبرپختونخوا کے ساتھ منسلک علما آئمہ اور خادمین کی تنخواہیں وقت پر نہیں دی جاتی اور ان کی تنخواہوں میں دیگر ملازمین کی طرح ہر سال اضافہ نہیں کیا جاتا۔ جب تک دیگر ملازمین کی طرح ان کا سکیل نہیں بڑھتا۔ تب تک حکومت کے اس اقدام کو مخلصانہ اقدام قرار دینا محکمہ اوقاف کے ائمہ کرام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ لہٰذا حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو پھر اولین قدم یہ اٹھائے کہ محکمہ اوقاف کے آئمہ کرام کی تنخواہیں دیگر ملازمین کے برابر کردیں ۔ان کا سکیل بارہ سے بڑھا کر چودہ پندرہ کرے اور ان کی تنخواہیں دیگر ملازمین کے ساتھ ادا کرے ۔تو یہ اس سے ہزار درجہ بہتر کہ حکومت تمام علما کے لیے دس دس ہزار مقرر کرے ۔لیکن اپنے ادارے کے ساتھ وابستہ علما کے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں۔

Print Friendly, PDF & Email