چمکتے تارے(دوسری قسط)

عنوان سے تعلق رکھنے والی دوسری شخصیت مولانا عماد الدین کا تعلق دنین چترال سے ہے مولانا صاحب کے بارے میں پہلے پہل مجھے آگاہی اس وقت ہوئی جب ہم سنگور سے تعلق رکھنے والی ایک  یتیم کینسر کی مریضہ بچی کے علاج معالجے کے لئے چندہ اکھٹے کر رہے تھے اس دوران میرا روزانہ کی بنیاد پر عزیزم اقرار الدین خسرو اور مسرت بیگ مسرت سے اس بچی کے سلسلے میں رابطہ رہتا تھا اُس وقت اقرار الدین خسرو نے مولانا عماد کے بارے میں بتایا کہ انہوں نےاس سلسلے میں بہت زیادہ کام کیا اس کے بعد بونی کے نوجوان عامر سہیل کے لئے جب چندہ مہم شروع کیا گیا تو مولانا عماد نے اس میں بھی بھرپور حصہ لیا تب سے خدمت خلق کے حوالے سے وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اِس وقت مولانا عماد نے چترال میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور تعلیم  و تربیت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے آپ ایک منٹ کے لئے سوچیں ایک ایسا بچہ جس کی تعلیم و تربیت تو دور کی بات کبھی عید کے دن اس کو کپڑے بھی میسر نہ ہو وہ عید کے دن دوسرے بچوں کے نئے کپڑے ،نئے جوتے ،موج مستیاں ،عیدی اور تمام تر فرحت کے اسباب دیکھ کر کتنا مایوس ہو رہا ہوگا  اور اس کے معصوم دل میں کتنی خواہشیں  اور کتنی تمنائیں ابھر آتی ہوں گی کہ کاش یہ سب میرے پاس بھی ہوتے تو آج میں بھی ان بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور کھیل کود میں عید گزار دیتا ایسے بچوں کے لئے اچھا کھانا اچھا لباس اور اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا کس قدر قابل قدر قابل رشک لائق تحسین اور باعث و اجرو ثواب کام ہے اس کا اندازہ ہم سب بخوبی لگا سکتے ہیں بلکہ اس کار خیر کو سر انجام دینے والا تو ہے ہی خوش نصیب اس کے لئے صرف سوچنے والا بھی اجرو ثواب کا مستحق ہے۔

چمکتے تارے پہلی قسط

مولانا عماد صاحب صرف سوچتے نہیں بلکہ اس نے ایک یتیم کو دیکھ کر اور اس کے دکھ درد سے واقف ہونے کے بعد سوچا کہ ایسے کتنے بچے اور بچیاں ہوں گی جو اس طرح بے یار و مددگار ہوں گے اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں اس نے دیر نہیں لگائی بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے ایسے بے سہارا بچوں کی تلاش میں چل نکلے کچھ دن کی تگ و دو کے بعد اس نے بارہ بے سہارا اور مستحق بچوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان کو ان کے گھروں سے اٹھا کر چترال شہر میں لے آیا جہاں ان کے لئے کرایے پہ ہاسٹل کا انتظام کیا کھانے پینے کا انتظام کیا اور اچھے سکولوں میں ان کا داخلہ کروادیا یہ سارا کام مولانا عماد تن تنہا سر انجام دینے لگا ہاسٹل کا خرچہ بچوں کے کھانے پینے کے اخراجات سکول کے اخراجات سارا کچھ وہ اپنی جیب سے دینے لگا ممکن ہے تعلیم کے سلسلے میں بعض سکول والوں کا ان کے ساتھ تعاون رہا ہو اس کا مجھے علم نہیں اس وقت مولانا عماد کے پاس بارہ بے سہارا بچے زیر کفالت ہیں لیکن وہ بچے ابھی خود کو بے سہارا اور یتیم نہیں سمجھتے ان کو وہ تمام سہولیات میسر ہیں جو اکثر ماں باپ والے بچوں کو میسر نہیں میرےاندازے کے مطابق ایک بچے کا قیام و طام اور سکول کا خرچہ کم از کم آٹھ سے دس  ہزارروپیہ ماہانہ ہوگا اس حساب سے بارہ بچوں کا ماہانہ ایک لاکھ روپے کا خرچہ بنتا ہے جب کہ مولانا عماد صاحب اسکول ٹیچر ہیں اور ممکن ہے ان کی تنخواہ تیس سے چالیس ہزار ہوگی اس چالیس ہزار میں اپنے گھر کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں میں سوچتا ہوں کہ کس طرح وہ یہ سارا نظام چلا رہا ہوگا لیکن جو لوگ ایک عظیم مشن کے لئے نکلتے ہیں وہ اسباب کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ خالص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے

معاشرے میں بے سہارا بچوں کے لئے سہارا بننے کا  بیڑا تو مولانا صاحب نے اٹھایا لیکن یہ کام اس اکیلے شخص کی بس کا ہرگز نہیں ہم سب کو آگے بڑھ کر عماد صاحب کا ہاتھ بٹانا ہوگا ہم سب اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے تو پوری وادی میں روشنی پھیل جائے گی اور کوئی بھی اندھیرے میں نہیں رہے گا یہ جگمگاتے ستارے ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں لیکن ان کی روشنی کو بڑھانے اور اس کو وسعت دینے کے لئے ہمیں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا محافظ بیت الاطفال اس وقت پوری قوم کی توجہ کا متقاضی ہے کیونکہ اس میں پوری قوم کے بے سہارا بچے زیر کفالت ہیں ہمیں ایک اپنے بچوں پر ڈال کر اللہ تعالیٰ شکر ادا کرتے ہوئے ان بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے اللہ کرے کہ محافظ بیت الاطفال تمام بے سہارا بچوں کا سہارا بنے مولانا عماد کے لئے صحت و تندرستی کی دعا کے ساتھ اس عظیم کام کے لئے خراج تحسین پیش کرتا ہوں

طوالت سے بچنے کے لئے موضوع کو یہیں پر سمیٹ رہا ہوں لیکن میرے ساتھ رہئیے گا کیونکہ ایک اور چمکتے تارے کا ذکر ابھی باقی ہے عزیزم سجاد علی جاد بھی انہی شخصیات میں سے ہے جنہوں نے خدمت خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور چترالی قوم کی خدمت کو سعادت سمجھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ چترال اور چترالیوں کے لئے بیش بہا خدمات سر انجام دے رہے ہیں یقینا سجاد علی جاد اور ان کی خدمات کے بارے میں جاننا ہم پر قرض ہے ۔

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ