بائیکاٹ صرف پھلوں کا؟؟؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے قوم کو پھل  فروشوں کے خلاف تحریک چلانے کے  لیےتیار کیا جا رہا ہے جس کے مطابق جمعہ ہفتہ اور اتوار کے دن عوام پھلوں کا بائیکاٹ کرے گی اگر سوچا جائے تو یہ ایک مثبت سوچ ہے کہ باہمی اتفاق سے مختلف مافیاز کو شکست سے دو چار کرکے ان کو راہ راست میں لانے پر مجبور کیا جائے لیکن کل سے میں دیکھ رہا ہوں اس مہم میں عوام نے بہت دلچسپی لی ہے عوام میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور بد قسمتی ہر کوئی اپنے شعبے کے اندر اس قابل ہے کہ اس کا بھی سماجی بائیکاٹ کیا جائے

مجھے ایک دوست نے فروٹ بائیکاٹ والی پوسٹ میں ٹیگ کیا تھا اس دوست کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں موصوف چترال میں میڈیکل اسٹور چلا رہے ہیں دو نمبر ادویات بیج کر نہ صرف یہ کہ وہ پیسہ بنا رہے ہیں بلکہ لوگوں کی صحت بھی برباد کر رہے ہیں وہ آج فروٹ بائیکاٹ مہم میں پیش پیش ہے۔  ایک صاحب ڈرائیور ہے دو سو روپے کی جگہ چار سو لے کر پھر بھی خوش نہیں ہوتا اور عید کے دنوں میں دس گنا اضافی کرایہ وصول کرتا ہے آج وہ پھل والوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ ایک صاحب منشیات کا کاروبار کر رہا ہے صرف اپنی ذاتی مفاد کی خاطر معاشرے کی رگوں میں زہر گھول رہا ہے اور نوجواں نسل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے بلکہ تباہ و برباد کرکے چھوڑ دیا ہے لیکن آج وہ بھی ایک کلوآم کی قیمت میں پانج دس روپے کے اضافے پر ریڑھی بان کے خلاف میدان میں کود پڑا ہے  اور عوام نے بھی ایسے افراد کے ساتھ بائیکاٹ کرنے کا کبھی سوچا تک نہیں ۔ ایسے بے شمار لوگ اس مہم کا حصہ ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ان ریڑھی والوں سے کئی گنا بڑے ظالم ہیں لیکن آج مظلوم بن کر احتجاج کر رہے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ غریب کا مسٔلہ ہی نہیں جس پر شور مچایا جارہا ہے ۔غریب نہ فروٹ خریدسکتا ہے نہ کھاتا سکتا ہے۔  غریب کو دو وقت کی روٹی درکار ہے لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں غریب کو دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے دستیاب نہیں ۔عوام میں اکثریت بھی ان لوگوں کی ہے جن کو پھل فروٹ سے کوئی زیادہ لینا دینا نہیں ،البتہ ان کو معیاری ادویات مناسب کرایہ اور منشیات سے پاک معاشرے کی از حد تمنا ہے مگر عوام نے ان لوگوں کے خلاف کبھی بائیکاٹ کا نہیں سوچا میں تو کہتا ہوں کہ اس بائیکاٹ کا دائرہ پھل فروشوں تک محدود کرنے کی بجائے معاشرے کے ان تمام شعبوں تک بڑھایا جائے جو عوام پر ظلم کر رہے ہیں۔  اب ہمیں چاہئے کہ فروٹ والوں کے بعد منشیات فروشوں اور ناجائز منافع خوروں، ناجائز کرایہ لینے والوں، جعلی ادویات بیجنے والوں سمیت تمام سماج دشمن عناصر کے خلاف اس مہم کو جاری رکھیں لیکن اگر اس بائیکاٹ کا مقصد صرف کسی غریب ریڑھی بان کے گھر چولہا تین دن تک بند کرنا ہے تو میں اس بائیکاٹ کو ظلم سمجھتا ہوں جس میں  کیلے کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ کرنے والا قابل گردن زدنی ٹھہرے اور پورے معاشرے کی رگوں میں زہر بھر دینے والا منشیات فروش کو قابل عزت سمجھا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. Shamsu nazar

    میں طاہر شادان کی تحریر کو پسند کر تا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے