سن لو اگر سن سکتے ہو

 اللہ   تجھے  کسی  طوفان   سے  آشنا  کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال نے یہ شعر کیوں کہا اس بات سے قطع نظر میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ شعر ہم جیسے غافل قوموں کو جگانے کے لئے ہی کہا ہوگا وادی جنت نظیر مسائل کا آماجگاہ بنا ہوا ہے طوفان بھی آئے سیلابوں کا بھی سامنا کرنا پڑا زلزلے آئے اور برفانی تودے بھی ہم گرے لیکن ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا نہیں ہوا سیلاب زلزلے بارش اور برفباری نے چترال کا نقشہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ایسے وقت میں ہمارے نمائندوں کے لئے ایک گھنٹے کی نیند بھی حرام تھی لیکن افسوس کہ وہ ہمیشہ محو خواب رہے اور علاقے میں انفرااسٹرکچر کو بحال کرنے کے بجائے ہمیں کاغذی منصوبوں پر ٹرخاتے رہے موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں ابھی صرف آٹھ نو مہینے باقی رہ گئے وادی چترال کے باسیوں نے جن نمائندوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے وفاق اور صوبوں میں میں بھیجا تھا وہ اپنی مدت پوری کرنے جارہے ہیں ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے خوب کمایا ہوگا بنک بیلنس بنایا ہوگا چار سال کی کمائی ان کے اکاؤنٹ میں رہے گی اور ایک سال کی کمائی سے اگلے الیکشن کی تیاری کریں گے اور ہم یہ سارے مسائل بھول کر ووٹ پھر انہی کی جھولی میں ڈال دیں گے چترال کے اندر سڑکوں پلوں سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت آپ کے سامنے ہے ان چار سالوں میں کوئی سکول بنتا ہم نے نہیں دیکھا اپنے نمائندوں کو کسی ہسپتال ڈسپنسری یا ہیلتھ یونٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے نہیں دیکھا کہیں کوئی نئی سڑک نہیں بنی تباہ شدہ پل آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں ٹوٹی سڑکیں آج بھی شہر نا پرساں کا منظر پیش کر رہی ہیں  لیکن ہم آج بھی نہیں جاگے سال دو سال  بعد اگر کوئی نمائندہ ہمارے علاقے میں  آتا ہے تو ہم اپنا حق مانگنے کی بجائے اس کو ہار پہناتے ہیں شاندار استقبال کرتے ہیں جیسے انہوں نے ہمارے تمام مسائل کر دئیے ہو یہ ہار پہنانے والے ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں یہ ہزار روپے میں نہ صرف خود بک جاتے ہیں بلکہ علاقے کے لوگوں کے ووٹ بھی بھیج دیتے ہیں  اور عوام ان پر بھروسہ کرکے پھر پانج سال فریاد کرتی رہتی ہے لیکن پھر پانج سال نہ نمائندے ان کی طرف دیکھتے ہیں نہ علاقے کے وہ لوگ جو ووٹ کے وقت آگے آگے بھاگ رہے ہوتے ہیں ذرا سوچو تو سہی پانج سال میں چترال کے عوامی نمائندوں نے کیا کچھ کیا چترال کے لئے کوئی ایک بڑا پراجیکٹ ڈھونڈو جس پر کام چل رہا ہو چاہے وہ صوبائی ممبران کی طرف سے ہو یا قومی ۔ کوئی نہیں ملے گا کیوں؟؟؟؟ آخر پانج سال کا فنڈ کہاں ہے کس کے جیب میں جاتا ہے کیا ایک ڈسٹرکٹ کو پانج سال فنڈ نہیں ملے ؟ اگر ملے تو کس پراجیکٹ پر لگائے گئے؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ کام کیوں نہیں ہورہا ٹوٹی سڑکیں دوبارہ کیوں نہیں بنتی تباہ شدہ پل بحال کیوں نہیں ہوتے سکول کیوں نہیں بنتے ہسپتال کیوں نہیں بنتے ہسپتالوں میں عملہ کیوں نہیں  ہوتا کیا کسی کے پاس جواب ہے؟ امید ہے کسی کے پاس جواب نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے کبھی سوچا تک نہیں کہ پانج سال میں کتنا کام ہونا چاہئے تھا اور اب تک کتنا کام ہوا ہے ۔ جواب سادہ سا ہے کہ عوام خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے ابھی تک جاگی نہیں ہے اور الیکشن سر پر ہے کوئی لائحہ عوام کی طرف سے طے نہیں ہوا لگتا ہے پھر پانج سال کے لئے ایسے نمائندے چن لئے جائیں گے جو آنکھیں بند کرکے پانج سال تک کھاتے رہیں گے اور عوام پھر پانج سال روتی رہے گی ابھی انتخابی مہم شروع ہوں گے بہت سارے کاغذی منصوبے عوام کو دیکھائے جائیں گے اور چترال کو مستقبل قریب میں  سوئٹزرلینڈ بنانے کی نوید سنائی جائے گی لیکن عوام موجودہ پانج سالہ کاکردگی کا نہیں پوچھے گی موجودہ دور میں جتنا فنڈ ملا جہاں خرچ ہوا یہ کوئی نہیں پوچھے گا بلکہ سب کی نظریں آئندہ دور حکومت میں شروع ہونے والے متوقع پراجیکٹس پر ہوں گے کہ یہاں  بہت بڑا ہسپتال بننے والا ہے انشاءاللہ یونیورسٹی بھی بنے گی سڑکیں پکی ہوجائیں گی سارے پل بن جائیں گے یہ سبزباغ اگلے الیکشن کے لئے دکھایا جائیگا اور ہم پھر سے تمام مسائل کو بھول کر اپناووٹ پھر قوم مسلک اور برادری کے حق میں استعمال کریں گے اور چترال کو پھر نظر انداز کریں گے ۔۔۔سن لو اگر ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اگر عوام سڑکیں بنوانا چاہتی ہے سکول ہسپتال کی ضرورت محسوس کرتی ہے اگر چترال کی تعمیر و ترقی کا خواہاں ہے تو پھر قوم مسلک رشتہ اور علاقے کے بجائے چترال کو ووٹ دینا ہوگا ورنہ پھر پانج سال رونا پڑے گا
لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے