یتیم ثقافت


بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کے رہنے سہنے، کھانے پینے، چلنے پھرنے، خوشی غمی منانے یہاں تک کہ صبح سے شام تک اس معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے کاموں ،باتوں ،کھیلوں اور فنون کو ثقافت کہا جاتا ہے ۔ یہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں کہ ہم اپنی ثقافت کو بھول جائے ۔یہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے کچھ مہربانوں کا، جنہوں نے چترال سے باہر مختلف شہروں میں کلچرکے نام پر تقریبات منعقد کرکے ثقافت کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی ثقافت کو اس یلغار سے محفوظ کر پائیں گے ؟ جواب شاید کوئی ہاں میں دے ہی دیں لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ہم بہت جلد اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن اور سماجی روایات کو پس پشت ڈال کر نام نہاد تعلیم یافتہ مہربانوں کی طرف سے مسلط کردہ ثقافت اور تہذیب و تمدن میں ڈھل جانے والے ہیں ۔کیونکہ کھو ثقافت اب یتیم ہوچکی ہے۔ ثقافت کے محافظین اب ثقافت کے ساتھ گھناؤنے کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایسے میں ثقافت کو بچانا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایسے پروگراموں میں جان بوجھ کر ثقافت کا نام استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ موسیقی کھو ثقافت کا حصہ ہے۔ لیکن ہم نے ایک مکمل ثقافت کو موسیقی میں بدل دیا ہے ۔ اب جہاں بھی ہمارے مہربان چترال اور کہو ثقافت کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہاں پر چند گانے والوں کو بلا کر پوری رات ناچ گانے اور رقص و سرور میں گزار کر اس کو ثقافت کا نام دے ڈالتے ہیں اور گویا ثقافت کا حق ادا کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس تمام طوفان بد تمیزی کو بپا کرنے والے ہماری زبان اور ثقافت کے لیے بظاہر درد رکھنے والے ہی ہوتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ کلچر اور میوزک کا آپس میں کتنا تعلق ہے ؟ہم نے تو میوزک کو ہی کلچر سمجھا ہوا ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں اس کلچر کو فروغ دینے میں صرف کر رہے ہیں ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے ؟کہ گزشتہ کئی سالوں سے ثقافت کے نام پر منعقد ہونے والے ان پروگراموں میں ہماری ثقافت کی نمائندگی کتنی فیصد رہی ہے؟ اور اس سے ہمارے کلچر کو کتنا فروغ ملا ہے ؟ یہ سوال ان لوگوں سے ہےجو ایسے میوزیکل پروگرامات کو کلچر کا نام دے کرکلچر کو بدنام کر رہے ہیں۔ دوسری بات ان پروگرامات میں ہمیشہ ہونے والی بد نظمی کی کروں گا کہ ان پروگراموں میں ہمارے نوجوان اپنے کردار اور عمل سے ہماری ثقافت کو بدنام کرتے چلے آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آج کل زور شور سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ کلچر شو تھا جوکہ حالیہ دنوں پشاور میں منعقد ہوا؟ اگر کلچر شو تھا تو اس میں کھو کلچر کو زندہ رکھنے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے کی بات ہوئی اورشو میں ثقافت کے طور پر کھو ثقافت کا کتنا حصہ پیش کیا گیا؟ اور اگر یہ صرف میوزیکل شو تھا تو اس کو ثقافتی شو کا نام دینے والوں سے وہاں پر موجود ہمدرداں ثقافت نے پوچھا کیوں نہیں یا یہ کہ اس پروگرام میں کھو ثقافت سے ہمدردی رکھنے والا کوئی فرد سرے سے موجود ہی نہیں تھا؟ آخر تھوڑی سی پبلسٹی کو مدنظر رکھ بہت سے ہمدردان ثقافت نے اس بے ہودگی کو ثقافت کا نام کیوں دیا ؟ کیا میں یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ کھو کلچر موسیقی سے آگے کیوں نہیں بڑھتی اور اس کلچر کو آگے بڑھنے سے کون روک رہا ہے؟ اس کی راہ میں رکاوٹیں کس نے کھڑی کی ہے ؟زندہ قومیں ترقی کے منازل اپنی ثقافت تہذیب و روایات اور سماجی اقدارکو سینے سے لگا کر طے کرتی ہیں۔ ثقافت اور تہذیب و تمدن کسی بھی قوم کو ترقی سے نہیں روکتیں لیکن ہم اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن رسم و رواج اور سماجی اقدار کو پس پشت ڈال کر مغربی طرز پر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں صرف گمنامی، ہوس پرستی ،افراتفری اورذہنی پریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔ہم اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن اوررسم و رواج کو چھوڑ کر بے نشان بن کر ترقی کرنا چاہتے ہیں جوکہ ہمارے لیےذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے