چمکتے تارے

دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اچھے برے،نیک و بد ،شریف و شریر، پڑھے لکھے و جاہل اور سنجیدہ و غیر سنجیدہ لوگ بستے ہیں صرف بستے ہی نہیں بلکہ معاشرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں ایک اچھا انسان جہاں رہتا ہے اس کی اچھائیاں صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتیں بلکہ اس انسان سے وابستہ دوسرے افراد میں بھی آہستہ آہستہ منتقل ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان جس ماحول میں رہے وہ اس ماحول سے متاثر ضرور ہوتا ہے ماحول اچھا ہو یا برا بہرحال وہ انسان کواپنے جیسا بنا ڈالتا ہے مثال کے طور پر آپ ایک گلاس پانی لے لیجئے اب اس پانی کو آپ فریچ میں رکھ دیجئیے تھوڑی ہی دیر میں پانی آپ کو برف کی صورت میں مل جائیگا کیونکہ پانی کو آپ نے جو ماحول فراہم کیا اس کی خصلت برف بنانا ہے لہذا پانی کا برف بن جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں  اسی طرح انسان بھی ماحول کا اثر لیتا ہے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل اچھے افراد سے ہی ممکن ہے اچھے افراد اچھے کردار سے ہی بنتے ہیں اور اچھے کردار اپنانے کے لئے اچھے لوگوں سے جڑے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے اچھے لوگ معاشرے میں چاند کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں وہ معاشرے کو بہتر سے بہترین بنانے کی تگ و دو میں دن رات مصروف عمل ہوتے ہیں وہ اس بات سے بالکل لا پرواہ ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو کس نظر دیکھتے ہیں تعریف کرتے ہیں یا تنقید کرتے ہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں وہ اپنی زندگی دوسروں کو خوش رکھنے ان کی تکالیف دور کرنے اور ان کی مدد کرنے میں صرف کرتے ہیں اور ہم انہی لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور ان کو اس کار خیر سے دور ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اللہ کے فضل سے ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی ذات اپنی ضروریات اور اپنے مسائل پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسروں کو خوش دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ایسے ہی تین شخصیات کا میں تذکرہ کرنے جارہا ہوں جن کی زندگیاں خلق خدا کی خدمت کے لیےوقف ہیں وہ جس دن کسی مصیبت زدہ کسی مجبور و مستحق کے ساتھ مدد کرتے ہیں وہ دن ان کے لئے انتہائی پرسکون ثابت ہوتا ہے وہ دوسرے کی مدد کرکے قلبی سکون حاصل کرتے ہیں۔

ان ہستیوں میں ایک نام استاذ محترم قاری فیض اللہ چترالی صاحب کا ہے جس کے پہلو میں خلق خدا کے لئے ہر وقت دھڑکنے والا دل ہے  چترال سمیت ملک بھر میں بلکہ پوری دنیا میں  جہاں اللہ کے بندے مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں تو اللہ کا یہ بندہ سب سے پہلے داد رسی کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق حاضر ہو جاتا ہے وادی چترال پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور شخصیات سے پہلے قاری فیض اللہ صاحب پہنچ جاتے ہیں مصیبت زدہ لوگوں میں اشیاء خوردونوش کی تقسیم سے لیکر ان کو چھت فراہم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھتا صرف یہی نہیں  بلکہ وادی چترال کے چار سے پانچ سو مستحق طلباء کو اپنے ادارے میں نہ صرف مفت تعلیم دلوا رہے بلکہ ان کے کھانے پینے،  رہنے سہنے سے لیکر علاج معالجے کا بھی بہترین انتظام گذشتہ بیس پچیس سالوں  سے کرتے چلے آرہے ہیں محترم قاری صاحب اور اس کے ادارے نے وادی چترال سمیت ملک بھر کو ہزاروں کی تعداد میں حافظ قرآن اور سینکڑوں علماء دے دئیے ہیں اس کے علاؤہ وادی چترال میں تعلیم کے فروغ میں  بھی سب سے نمایاں کردار اگر کسی نے ادا کیا ہے تو وہ قاری فیض اللہ چترالی  ہیں گزشتہ پندرہ سالوں سے قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے میٹرک میں ڈسٹرکٹ ٹاپ کرنے والےطلبا کے لئے ایوارڈ اور نقد انعامات ان کی تعلیم دوستی کے ثبوت ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف طلبا میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوچکا ہے بلکہ دوسرے ادارے بھی ان کو دیکھا دیکھی طلبا کی حوصلہ افزائی کے لئے انعامات و اعزازات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو کہ ایک مثبت تبدیلی ہے اور اچھے لوگ معاشرے پر یوں اثر انداز ہوتے ہیں قاری فیض اللہ چترالی صاحب کی خدمات پر مکمل روشنی ڈالنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے اس صفحے میں ان کی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کے مترادف ہے قاری صاحب ایک عہد ساز شخصیت ہیں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر صحت تندرستی کے ساتھ استقامت عطا فرمائے ۔

اس موضوع کے مزید دو شخصیات مولانا عماد الدین دنین اور میرے عزیز دوست سجاد علی جاد ہیں ان دونوں شخصیات کی خدمات پر انشاء مضمون کے دوسرے حصے میں روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے

Print Friendly, PDF & Email

2 تبصرے