ڈی پی اور چترال کے نام

جناب والا ! گزشتہ دنوں ڈی پی او چترال علی اکبر شاہ کا تبادلہ ہوا جس کی جگہ نئے ڈی پی او کے طور پر آپ کی چترال آمد یقیناًہم سب کے لیے باعث مسرت ہے جس کا اندازہ آپ نے چترال میں داخل ہوتے ہی لگایا ہوگا۔ محترم سر !چترال کے لوگوں نے جس انداز میں آپ کا استقبال کیا اور جو عزت بخشی شاید کسی علاقے کے عوام نے اتنی خاطر مدارات نہیں کی ہوگی۔معزز منصور امان صاحب !مجھے نہیں معلوم کہ چترال آمد کے موقع پر عوام کی طرف سے جو شاندار استقبال کیا گیا آپ اسے کس نظر دیکھتے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ ایک پولیس آفیسر کے لیے لوگوں میں اتنی ہمدردی اور محبت دیکھ کر کیا سوچ رہے ہوں گے۔ یقیناً آپ یہی سوچیں گے کہ آخر چترال کے عوام نے مجھے جس قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے مجھے اس کا بدلہ اسی انداز میں دینا ہوگا۔ جناب عالی! میں آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ جس ضلعے میں بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر تعینات ہوگئے ہیں یہاں چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، بم دھماکے ،فائرنگ، قتل و غارت ،دہشت گردی، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری جیسے اخلاقی، سماجی اور معاشرتی جرائم یا تو صفر ہیں یا پھر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ عوام جو آپ کی راہ میں پھول کی پتیاں نچھاور کر رہی تھی ان تمام جرائم سے پاک ہیں آپ سوچیں گے کہ اگر ان لوگوں کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ایک پولیس آفیسر کی اتنی خاطر مدارات یا بالفاظ دیگر خوشامد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے تو جناب !توجہ فرمائیے مہمان نوازی کی صفت چترال کے بچے بچے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ عزت صرف آپ کو نہیں دی بلکہ یہاں آنے والا ہر مہمان خود کو کوئی خاص مہمان سمجھتا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے آنے والوں کو عزت دی گئی لیکن سر یہ الگ بات ہے کہ کچھ آفیسر اس عزت افزائی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کچھ آفیسر اس کو عوام کی طرف احسان سمجھ کر بدلہ چکا دیتے ہیں اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہاں کے لوگ اس عزت افزائی اور ہمدردی کے بدلے آپ سے کیا چاہتے ہیں ؟ یہ ملازمت آپ سے نہیں مانگتے نہ آپ سے فنڈ کا مطالبہ کرتے ہیں یہ لوگ آپ سے صرف فرض شناسی ،دیانت داری اور فرض منصبی کی ادائیگی چاہتے ہیں اور آپ سے پہلے آنے والے افسران سے بھی ان لوگوں نے یہی توقع رکھی تھی جس نے پورا کر دکھایا اس کو آج بھی یہاں کا بچہ بچہ سلام پیش کرتا ہے۔
قابل قدر ! جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ یہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں یہاں کے لوگ صرف ایک بڑے مسلے سے دوچار ہیں آپ کے ڈیپارٹمنٹ سے متعلق ایک کمزوری جو ہمیشہ سے رہی ہے میں اس کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ وادی چترال میں منشیات فروش ایک بہت بڑا مافیا بن چکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی نئی نسل تباہی کے دہانے پر ہے۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ یہ لوگ ایک منظم طریقے سے منشیات پہنچا رہے ہیں سکولوں کے بچوں تک کو منشیات بآسانی دستیاب ہے چترال کے باشعور لوگ انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں کہ آخر اپنی اولاد کو کس طرح اس لعنت سے بچایا جا سکتا ہے محترم سر !یہاں کے عوام کی ہمدردی اور عزت افزائی کا صلہ اگر آپ دینا چاہے تو اس سے بڑھ کر آپ کچھ نہیں دے سکتے کہ چترال کو منشیات فروشوں کی چنگل سے آزاد کردے آپ کے سامنے صرف ایک ہی چیلنج ہے کہ معاشرے کو اس ناسور سے پاک کرنا ہے اگر آپ چاہیں تو بآسانی یہ کام کر سکتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ چترال کے لوگ اور ان کی آنے والی نسلیں آپ کو کبھی نہیں بھولیں گی۔

Print Friendly, PDF & Email