میں مجرم ہوں

چترال کو پاکستان میں ضم ہوئے اڑتالیس برس بیت گئے باالفاظ دیگر نصف صدی ہونے کو ہے اس طویل عرصے میں چترال کے عوام نے ہر الیکشن میں بھرپور حصہ لیا اور درجنوں نمائندوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اسمبلی میں بھیجا یہاں کے لوگوں نے ووٹ غریب کو بھی دیا ،امیر کو بھی، دینی جماعتوں کو بھی آزمایا اور لبرل جماعتوں کو بھی مہتروں کو بھی جتوایا اور رعایا کو بھی کس لیے ؟ صرف اس لیے کہ ہمارے مسائل حل ہو اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے کم از کم بنیادی سہولیات میسر ہو۔ایسا ہی ہے؟ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ چترال کے لوگوں نے اڑتالیس سال تک اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ووٹ دیئے؟ ممکن ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان اڑتالیس سالوں میں غالبا چھ سات بار انتخابات ہوئے اور دو فوجی حکمران گزرے بیس سال ہمارے فوجی حکمرانوں کی نذر ہوگئے اور اٹھائیس سال جمہوری حکومتوں کے حصے میں آئے جن میں کچھ خالص جمہوری اور کچھ آمریت کی چھتری تلے نیم جمہوری دور آئے۔دس سال اور کچھ مہینے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت رہی اور دس سال پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔پانج سالہ دور قاف لیگ کا آیا مشرف کی آمریت میں اور تین سے چار سال بھٹو کے بھی تھے مختصر یہ کہ ان اڑتالیس سالوں میں چترال کے لوگوں نے کبھی چترال کو ووٹ نہیں دیا یہ الگ بات ہے کہ بیج میں کچھ اچھے مخلص لیڈر بھی منتخب ہوئے لیکن یہ اس وجہ سے نہیں کہ عوام نے مخلص سمجھ کر ووٹ دیا تھا۔بلکہ خوش قسمتی سے مخلص نکلے اور کچھ کام کر گئے ورنہ ہم نے ہمیشہ قوم ،ذات پات ،رشتہ ،علاقہ پارٹی اور مسلک کو ہی ووٹ دیا ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ میں جس کو ووٹ دے رہا ہوں کیا یہ اس قابل ہے کہ جیت کر ہمارے مسائل حل کرسکے ؟کبھی نہیں سوچا۔ ہم جس نیت سے ووٹ دیتے رہے ہمارے نمائندے اس پر پورے اترتے رہے یعنی قبیلے جیتتے رہے۔مسالک جیتتے رہے ،علاقائیت جیتتی رہی ،پارٹیاں جیتتی رہیں لیکن چترال ہر بار ہارتا رہا۔ چترال کے مسائل ہارتے رہے، اس عرصے میں سات بار الیکشن ہوئے ہم نے ہر بار برادری ،قبیلے، رشتہ دار ،مسلک ،پارٹی اور قوم کو ووٹ دیئے ایک بار بھی چترال کے نام پر ووٹ نہیں ڈالا سوائے گزشتہ الیکشن کے جس میں چترال کے لوگوں نے لواری ٹنل کا احسان اتارنے کے لیے پرویز مشرف کے امیدوار کو ووٹ دیا۔اس کے علاؤہ اکثر و بیشتر ووٹ مذکورہ باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اڑتالیس سال میں بھی چترال تاریکی میں ہے۔ پورے چترال میں چند صرف سو کلومیٹر پکی سڑکیں ہیں وہ بھی کچی سڑک سے بدتر حالت میں ہیں۔بجلی کا شدید بحران ،ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہے تو دوائی نہیں، دوائی ہے تو ڈاکٹر نہیں۔عوام کی حالت یہ ہے کہ جس کو ووٹ دیتے ہیں گویا وہ شہنشاہ بن جاتا ہے۔ پھر اس سے پوچھنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی۔ دو ڈھائی سال میں کبھی کسی علاقیپر سیاست ورشوت کے طور پر اگر چار پانج لاکھ لگاتے ہیں تو عوام پھولے نہیں سماتے اور خوشی سے پاگل ہو جاتے ہیں حالانکہ اس علاقے کے بنیادی مسائل ایسے ہی پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔مثال کے طور میرے علاقے میں روڈ کی ضرورت ہے۔بجلی نہیں ہے۔ہستپال نہیں۔ کالج نہیں، واضح رہے کہ یہ مسائل علاقے کے سو فیصد عوام کے مشترکہ مسائل ہیں۔لیکن عوام نہ ان مسائل کو اہمیت دیتا ہے نہ اس کے لیے نمائندوں سے پوچھنے کو تیار ہے اور نمائندے اتنے سیانے ہیں کہ اصل اور بڑے مسائل کو ہاتھ نہیں لگاتے کیونکہ اس کے لیے خطیر فنڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔اور فنڈ اگر ایسے کاموں میں لگ جائے تو ان کے لیے کچھ نہیں بچتا لہٰذا نمائندوں نے اس مسلے کاآسان حل نکالا ہے وہ ہر علاقے میں جاکر دو تین لاکھ ،چار لاکھ یاپانج لاکھ اپنے کسی نورنظر کو تھما دیتے ہیں کہ لنک روڈ کی مرمت کرے۔یہاں سومیٹر روڈ بنائیے۔ کچھ گھرانوں کے لیے جیب ایبل راستہ بنائیے اور اس گاؤں کے لیے پائپ لائن کی مرمت کرے اور یوں وہ آسانی سے ایک تیر سے دو نہیں بلکہ تین شکار کرلیتے ہیں۔ عوام بھی خوش ،فنڈ کی بھی بچت اور ان کے من پسند لوگ بھی ان چاریا پانج لاکھ میں سے آدھا اپنا نکال کر باقی میں سے صاحب کے لیے ہار خریدتے ہیں۔ کھانے کا بندوبست کرتے ہیں اور تھوڑا بہت روڈ اور پائپ لائنوں کی مرمت کرکے عوام کو بھی انجیکشن لگا لیتے ہیں اور میں ہوں کہ نہ فنڈ کے بارے میں پوچھتا ہوں ،نہ لاگت کے بارے میں سوال کرتا ہوں ،نہ کام کے معیار کو دیکھتا ہوں اور نہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہوں ،نہ آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دیتا ہوں ،نہ اپنے مسائل کو اجاگر کرتا ہوں، نہ مسائل حل نہ ہونے پر شکوہ کرتا ہوں اور نہ کسی کوفون کرکے پوچھتا ہوں ، نہ احتجاج کرتا ہوں ،نہ نمائندے کو بلاتا ہوں ،نہ ان کے دفتر جاتا ہوں ،نہ ووٹ دیتے وقت اپنے مسائل کو مدنظر رکھتا ہوں بس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے آرام سے بیٹھے انتظار کر رہاہوں کہ میرے لیے روڈ بنے، ہسپتال بنے ،بجلی کا مسلہ حل ہو، سکول و کالج بنے۔تو میرے دوست یہ جنت نہیں ہے کہ خود بخود دلی خواہشیں پوری ہوتی رہیں یہ دنیا ہے یہاں محنت کروں گا تو کچھ ہاتھ آئے گا۔ آواز اٹھاؤگیاور مچاؤ گے،ہلہ بول دوگے تو کچھ ہوگا ورنہ ان مسائل کے حل نہ ہونے کا ذمہ دار ہم کسی کو نہیں ٹھہرا سکتے آپ مجرم ہیں اور میں مجرم ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email