تورکہو روڈ ،عوام اور ممبران

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ وقت میں تورکہو روڈ اہلیانِ تورکہو کے لیے زندگی اور موت کا مسٔلہ ہے بلاشبہ اور گزشتہ کئی دہائیوں سے تورکھو کے باسیوں نے ہر جگہ اور ہر فورم پہ اس کو اٹھا یا لیکن ستم ظریفی ہے سابقہ اور موجودہ منتخب نمائندوں نےاس ایشو کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کو سنجیدہ نہ لینے کا ایک ہی مقصد ہے اگر یہ ایشو حل ہوجائے توان کے پاس تورکہو سے ووٹ بٹورنے کا سب سے کارگر اور تیر بہ ہدف نسخہ ہاتھ سے چلا جائے گا۔ مولانا جہانگیر مرحوم کے دور میں اس روڈ پر کام کا آغاز ہوا اس وقت تورکہو روڈ کے سنگم سے لے کر قاقلشٹ کے آخری حصے تک روڈ کی توسیع اور بلیک ٹاپنگ بھی ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے مولانا مرحوم کی مدت ختم ہو گئی اور اگلی بار عوام نے اس پاداش میں ان کے مدمقابل امیدوار غلام محمد کوسپورٹ کیا اور یوں غلام محمد ایم پی اے بن گئے پانج سال گزار دئے لیکن اس روڈ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا ان کے ساتھ شہزاد محی الدین صاحب تھے دونوں نے عوام سے اسی روڈ کے نام پر ووٹ لیا اور دونوں نے اپنی مددت پوری کی رخصت ہوگئے لیکن روڈ وہاں سے ایک فٹ آگے نہ بڑھ سکی اس کے بعد عوام سے ایک بار پھر تورکہو روڈ کے نام پر ووٹ بٹورا گیا اب چار سال پورے ہوگئے لیکن تورکہو روڈ کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم نہیں ہوتی ۔پوچھو؟ تو ایم این اے صاحب کی طرف سےجواب ملتا کہ ہم نے تو فنڈ منظور کروایا ہے لیکن صوبے نے فنڈ روک لیا ہے اب اس میں میرا کیا قصور ہے؟ عوام کی نگاہیں ایم پی اے صاحب کی طرف اٹھتی ہیں تو ایم پی اے صاحب کی طرف سے جواب آتا ہے کہ تورکہو روڈ منصوبے کو ناکامی سے بچانے کے لیے دو کروڑ روپے میں نے اپنے فنڈ سے دے دیا وفاق کی طرف سے کوئی فنڈ ابھی تک نہیں ملا اور کبھی فرماتے ہیں صوبائی حکومت ہمیں فنڈ نہیں دیتی ۔۔۔۔ اس کے علاوہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ علاقے کے کچھ مفاد پرست عناصر بھی تورکہو روڈ کو اپنی ذاتی مفادات کی خاطر ناکام بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جن کے نام اور پتہ یہاں درج کرنا مناسب نہیں البتہ بوقت ضرورت تورکہو کے ان محسنوں کو بے نقاب کیا جائے گا
تورکہو روڈ کی خستہ حالی اور ویرانی میں جتنا قصور عوامی نمائندوں کا ہے اس سے کہیں زیادہ قصور وار یہاں کے لوگ خود بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ انتخابات کے وقت دوستی، رشتہ داری ،قوم پرستی اور مذہب پرستی کو سپورٹ کیا جس کی بدولت ایسے ہی لوگ منتخب ہوجاتے ہیں ۔تورکہو کے عوام نے کبھی بھی اپنے مسائل کو سمجھ کر ان کو حل کرنے والے کو ووٹ نہیں دیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہمارے ووٹ سے ہمیں بھی کوئی فائدہ ہونا چاہیے یا نہیں بس آنکھیں بند کرکے کچھ لوگ اپنی قوم کے بندے کو ووٹ دے دیتے ہیں اور کچھ اپنے مسلک کو ووٹ دیتے ہیں اورکچھ ذاتی مفادات کو ووٹ دیتے ہیں جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ہم ووٹ دیتے رہیں گے یہ لوگ جیتتے رہیں گے لیکن ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے گا کیونکہ ہم مسائل حل کرنے کے لیےووٹ دیتے ہی نہیں تو کون ہے جو ہمارے لیے فنڈ ضائع کرے ۔ ذرا سوچئے کہ تورکہو روڈ کے نام پر ہمارے ساتھ پندرہ سالوں سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن ابھی تک ہمارے کسی علاقائی لیڈر کو ، کسی ناظم ،نائب ناظم کو یاکسی سیاسی شخصیت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے اس قانونی حق کے لیے آواز اٹھائیں اور عوام کو ساتھ لے کر پرامن مگر پرزور احتجاج ریکارڈ کروائیں اور نہ ہی عوام دو چار قدم اگے بڑھنے کو تیار ہے۔ اب تو ہمارے منتخب نمائندگان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ تورکہو روڈ پر کام نہیں ہوگا کیونکہ صوبائی حکومت اس روڈ کے لیے مختص ہونے والے پیسے دوسرے منصوبوں میں خرچ کرنے کی کوشش کر رہی ہے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ عوام کو اب باہر نکلنا ہوگا کیونکہ منتخب نمائندوں نے اعتراف کرلیا کہ ہم اس قابل نہیں کہ اپنے حلقے کے لیےفنڈ لا سکے ۔اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرکے یہ فنڈ حاصل کرتی ہے یا خاموش بیٹھنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہے ۔ دوسری طرف ہمارے منتخب نمائندوں کو بھی چاہئے کہ وہ یہ باتیں اپنے آپ سے دہرانے کے بجائے تورکہو میں جاکر دو تین مقامات پر جلسہ کرے ان لوگوں کو بتا دے کہ آخر اس روڈ میں کیا رکاوٹیں ہیں اور پھر ان کو ساتھ لیکر صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کریں۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ ایم این اے صاحب اسلام آباد میں رہے ۔ ایم پی اے صاحب گلگت اور پشاور کے سفر میں لگا رہے اور عوام کو احتجاج کے پیغامات بھیج دیئے جائے۔
عوامی نمائنددوں کی طرف سے اعتراف کے بعد اب عوام کو ان سے زیادہ توقعات کی ضرورت نہیں رہی بلکہ خود سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا اور کوئی قدم اٹھانا ہوگا جو لوگ دس پندرہ سال میں اس روڈ کی خبر نہ لیں وہ ابھی ایک سال میں کیا خاک لیں گے۔ ساحر نے کیا خوب کہا ہے۔
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے