سلیم خان ،توہین رسالتؐ ، گستاخ اور اسماعیلی

گزشتہ دونوں چترال میں پیش آنے والے دو واقعات نے ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبہ ٔ ایمانی کو مجروح  کیا ہے۔ اس سے قبل جب اسماعیلی کمیونٹی کے سنجیدہ لوگ اپنے امام کی آمد کے سلسلے میں تیاریوں میں مصروف تھے۔ میں نے چند کلمات چترال کے باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے کے جذبات کے احترام کے حوالے سے  انہی صفحات پرلکھی تھی کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ امام کی آمد پر نا سمجھ فیس بک یوزر اور نام نہاد ادبا و شعرا گند پھیلائیں گے۔ ان تمام فیس بک یوزر کی توجہ کے لیے میں نے عرض کیا تھا کہ کسی بھی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے لیکن کچھ شر پسند عناصر یا کچھ جاہل قسم کے لوگوں نے سارا معاملہ ہی بگاڑ دیا جس کی وجہ سے اسماعیلی کمیونٹی سمیت ہمدردی اور امن امان کی باتیں کرنے والے بھی نشانے پر رہے جن جن لوگوں نے امن و امان کا درس دے کر اسماعیلی کمیونٹی کے امام کو خوش آمدید کہا تھا ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس موقع پر جذبات میں آکر ایک دوسرے کے عقائد کو پامال نہ کیا جائے اس سلسلے میں سب سے پہلے ایم پی اے سلیم خان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے ایک متنازعہ پوسٹ لگا دیا جس پر ایک پڑھے لکھے جاہل نے اپنی رائے دیتے ہوئے گستاخی کے مرتکب ہوئے اور معلون ٹھہرے۔ اس ملعون کے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ  پر مشتمل سوشل میں میڈیا میں کئی دوسرے لوگوں نے بھی کمنٹ کیے اس کے بعد چند خرافات پر مبنی اشعار اور قصیدے منظر عام پر آئے جس میں عقیدہ توحید کو نشانہ بنایا گیا اور بات اس وقت بگڑ گئی جب ایک شاعر کے کفریہ کلمات پر مبنی اشعار پر اسماعیلی کمیونٹی کے کافی سارے لوگوں نے واہ واہ اور بہت خوب جیسے الفاظ سے داد دینے لگے۔ مجھے کئی دوستوں نے لنک بھیج دیا لیکن میں نے سب کو یہ کہہ کر کمنٹ کرنے سے منع کیا کہ آپ لوگ اس پوسٹ پر کمنٹ کرنے سے باز رہے۔ مجھے امید ہے کہ خود اسماعیلی کمیونٹی میں سے کوئی اس جاہل کو سبق سکھائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تب معاملے کو سلجھانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اور وہ پوسٹ آج بھی وہی پر موجود ہے ۔ خوشگوار ماحول کو خراب کرنے میں اسماعیلی کمیونٹی کے چند شر پسندوں نے کردار ادا کیا اس کے بعد ملعون شخص کی گرفتاری عمل میں آئی۔لیکن اس وقت تک  سوشل میڈیا میدان جنگ بن چکا تھا اب ہمیں بھی بیک فٹ پر جانا پڑا تھا کیونکہ ہم نے چترال میں امان و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کی بات کی تھی جس کو ان شرپسندوں نے سبوتاژ کرنے کی کامیاب کوشش کی جب جگہ جگہ عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت پر حملہ ہونے لگا تو اہل سنت کے فیس بک یوزروں نے بھی کمان سنبھال لیا اور پھر جو کچھ ہوا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایسے ماحول میں  جب عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت جیسے حساس عقائد کو چھیڑا گیا ہو آپ کسی کو امن و امان اور صبر کی تلقین نہیں کرسکتے بلکہ خود انسان کا اپنا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے یہاں پر پہلے غلطی شرپسندوں نے کی۔ دوسری غلطی فیس بک یوزر نے یوں کی کہ ان تمام متنازعہ مواد پر واہ واہ کرتے رہے اس کے بعد اہل سنت کے فیس بک یوزر ردعمل میں بہت آگے نکل گئے اور ان گستاخانہ مواد کے ساتھ ساتھ پوری اسماعیلی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جو کہ ان کی غلطی تھی ۔غلطی اس لیے کہ کچھ نوجوان اور جذباتی   دوست پوری کمیونٹی کو گستاخ رسولؐ قرار دینے کی کوشش کرتے رہے جوکہ کسی طور درست نہیں تھی ۔میں چاہوں گا کہ اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے بجائے صرف مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھرپور کوشش کرے اور اگر اسماعیلی کمیونٹی فیس بک  پر پوسٹ ہونے والے اپنے ہم جماعتوں کے متنازعہ پوسٹوں سے اختلاف رکھتے ہیں جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ چند شر پسندوں کا کام ہے مجموعی طور اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ امام کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال درست ہے تو پھر اہل سنت سے دو قدم آگے بڑھ کر اسماعیلی کمیونٹی کو ان لوگوں کے خلاف کام کرنا چاہئیے جنہوں نے مذہب اور عقیدے کو بدنام کرنے کی کوشش کی اگر اسماعیلی کمیونٹی کے ذمہ دار افراد اور ادارے خاموش رہے تو یہ واقعات پھر بھی رونما ہوسکتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا بے لگام ہے اس میں کسی پرکسی کاکنٹرول نہیں  ہے جب تک متنازعہ مواد پوسٹ کرنے والوں کو کڑی سزا نہ دی جائے ۔ میں تمام چترالیوں سے بالخصوص ضلعی انتظامیہ ڈسٹرکٹ پولیس اور عوامی لیڈروں سے اپیل کرتا ہوں کہ شان رسالت میں گستاخی کے مرتکب افراد چاہے وہ ملعون رشید ہو ملعون زار خان ہو یا ملعون شرف ہو سب کو بلا تاخیر کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرے اور اس کے علاؤہ جتنے بھی متنازعہ پوسٹ ہوئے ہیں ان کی جانج پڑتال کرکے ذمہ دار افراد کے خلاف بلا تاخیر کاروائی کی جائے تاکہ اس ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو اور آئندہ کسی کو اس طرح کسی کے جذبات سے کھیلنے اور امن و امان کو داؤ پر لگانے کی ہمت نہ ہو دوسری گزارش میری ان لوگوں سے ہے جو سلیم خان کو توہین رسالت کا مرتکب ٹھہرا کر پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان لوگوں کو چاہئے کہ جرم کے بقدر سزا کی بات کرے ان کی غیر ذمہ داری پر ان کی مذمت سب کرتے ہیں لیکن وہ ان الفاظ کی وجہ سے گستاخ رسول بہرحال نہیں ہے اس سے ہٹ کر منع کرنے کے باوجود اسماعیلی جھنڈا میں اپنی تصویر لگا کر  پوسٹ کرنے اور اسماعیلی  اداروں کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے اہل سنت کے جذبات مجروح کرنے پر ان کی جو سزا بنتی ہے اس کا مطالبہ پرزور طریقے سے کرنی چاہئیے ۔گنتی کے ان چند شر پسندوں  کی وجہ پوری کمیونٹی کو گستاخ قرار دینے سے قانون ختم نبوت کی اہمیت بھی ختم ہو جائیگی اور آہستہ آہستہ یہ معمول کی بات بن جائیگی جس کی وجہ سے اس قانون پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جائیں گی

لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ جتنے بھی گستاخ ملعون سامنے آئے ہیں دونوں کمیونٹی نے مل کر ان  کے لیے فی الفور سزا کا مطالبہ کرنا چاہئیے تاکہ اسماعیلی کمیونٹی  میں ان لوگوں کو نشانہ نہ بنایا جا سکے جنہوں نے نہ گستاخی کی نہ کوئی متنازعہ پوسٹ کیا وہ ان دنوں سوشل میڈیا سے دور رہے اور جب آئے تو انہوں نے ان گستاخوں کی بھرپور مذمت کی ایسے لوگوں کو گالیاں دینا اور پوری کمیونٹی کو نشانہ بنانا بہرحال درست نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email