ایک ناقابل یقین واقعہ

آج کے اس واقعے کو اگر میں زندگی کا تلخ ترین تجربہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا ہوا یوں کہ صبح سات بجے چترال کے لئے میں گھر سے نکلا میرے پاس ساڑھے چار لاکھ نقد روپے تھے جو اتوار کی چھٹی کی وجہ سے بنک میں جمع نہیں کرا سکے تھے یہ رقم ہفتے والے دن میں گھر لے آیا تھا زیادہ تر نوٹ ایک ہزار والے تھے جس کی وجہ سے جیب میں رکھنا ممکن نہیں تھا سو میں نے رقم شاپر میں ڈالا اور میں روڈ پر گاڑی کا انتظار کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی آگئی جسمیں صرف فرنٹ سیٹ پر ایک بندے کی گنجائش تھی جس میں بیٹھ کر آیون سے چترال کی طرف روانہ ہوا ۔ شاپر ہاتھ میں رکھا ہوا تھا راستے میں کسی کی کال آئی تو شاپر سوئچ بورڈ کے اوپر رکھ کر جیب سے موبائل نکالا اور بات کرتے کرتے گاڑی اڈے پر پہنچ گئی میں گاڑی سے اترا اور اپنی راہ لی ۔ اتالیق چوک پر پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ شاپر گاڑی میں بھول آیا ہوں جلدی سے واپس پلٹا اور گاڑی ڈھونڈنا شروع کردیا ۔ بد قسمتی سے مجھے نہ گاڑی کا نمبر معلوم تھا اور نہ ہی ڈرائیور کا نام صرف یہی نہیں بلکہ گاڑی میں بیٹھے کسی بھی شخص کو میں نہیں جانتا تھا ۔ اب میرے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ میں ڈرائیور کو دیکھ سکوں ۔ میں سیدھا آیون غواگئے اسٹنڈ پر پہنچا منشی کو ڈرائیور کا حلیہ بتایا تو اس نے کہا کہ میں نے ایسے کسی ڈرائیور کو کبھی دیکھا ۔ ممکن ہے وہ دروش والے اسٹنڈ کی گاڑی ہو ۔ بھاگا بھاگا دروش اسٹنڈ پر پہنچا ڈرائیور کا حلیہ بتایا تو بیان کردہ حلیے سے ملتے جلتے ایک ڈرائیور سے ملوایا گیا لیکن وہ میرا مطلوبہ ڈرائیور نہیں تھا ۔ منشی نے اس حلیے کے کسی اور ڈرائیور کو پہچاننے سے انکار کردیا ۔ وہاں سے بروز والے اڈے پر پہنچا تو وہاں پر منشی نے کہا کہ یہاں ایسا کوئی ڈرائیور نہیں ہے ۔ پھر کیا تھا کہ اڈے میں موجود گاڑیوں کو ایک ایک کرکے چیک کرنے لگا لیکن ڈرائیور کہیں نظر نہ آیا۔ ڈیڑھ گھنٹے تک اڈے کے اندر اور اڈے کے آس پاس ڈھونڈتا رہا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ دوبارہ آیون والے اسٹنڈ پر گیا اور منشی کو اپنا نمبر دے کر کہا کہ اگر وہ ڈرائیور آپ کے پاس آ جائے تو مجھے کال کر دینا مجھے یقین ہے جب وہ شاپر دیکھے گا تو ضرور مجھے ڈھونڈنے آئے گا۔ ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ بڑے معصوم لگتے ہیں آپ چار لاکھ مجھے مل جائے تو میں تمہیں ڈھونڈوں گا ؟؟؟

مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن غصہ ضبط کرکے میں نے کہا بھائی دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں سارے ہمارے جیسے نہیں ہوتے ۔ خیر دو گھنٹے کی تلاش بسیار کے بعد مایوسی غالب ہونے لگی تو آخری آپشن تھانے میں رپورٹ کرنا تھا ۔وقت ضائع کئے بغیر تھانے پہنچا اور درخواست لکھ کر محرر کو پکڑایا صاحب نے کہا کہ معاملہ بہت مشکل ہے آپ کو نہ گاڑی کا نمبر معلوم ہے نہ ہی ڈرائیور کا نام ۔ اب ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں اتنے میں جناب کوثر ایڈوکیٹ صاحب بھی تشریف لائے اس نے بھی صاحب جی سے درخواست کی کہ بھرپور کوشش کرے ۔صاحب نے کہا اڈے کے پاس اور بازار میں اشتہار لگا دیں اور دعا کرے اللہ پاک اس ڈرائیور کو توفیق دے ۔ تھانے سے نکلا اور اشتہار چھپوا کر پھر اڈے کی طرف چل پڑا بروز اڈے کے پیچھے ہوٹل کی دیوار پر اشتہار لگانے کے لئے آگے بڑھا تو ایک غواگیے پر نظر پڑی جو ہوٹل کے اڈے کی طرف کھلنے والے دروازے کے پاس کھڑی تھی مجھے شک ہوا اور گاڑی کی طرف بڑھا جب تھوڑا قریب گیا تو سوئچ بورڈ پر شاپر اسی طرح رکھا ہوا نظر آیا گاڑی کے شیشے بھی کھلے ہوئے تھے مجھے یقین نہیں آیا اور شاپر کی طرف ہاتھ بڑھایا ہاتھ شاپر تک پہنچنے تک مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جب میں نے شاپر اٹھایا اور کھول کر چیک کیا تب یقین آیا کہ واقعی مجھے میرے پیسے مل گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صبح آٹھ بجے ہم اس گاڑی سے اترے تھے اس وقت ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ساڑھے تین گھنٹے تک گاڑی یہی کھڑی تھی یا گھوم پھیر کر یہاں آ کر کھڑی ہوگئی تھی ۔ دونوں صورتوں میں تین گھنٹے تک ڈرائیور کا شاپر کو ہاتھ نہ لگانا حیران کن بات ہے اگر ڈرائیور اسی وقت گاڑی کھڑی کرکے کہیں چلا گیا تھا تو شیشے بند کیوں نہیں کئے اور تین گھنٹے تک کسی اور نے بھی شاپر کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ بہرحال یہ تین گھنٹے زندگی کے مشکل ترین لمحات میں شامل ہوگئے لیکن ان تین گھنٹوں نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ۔ جو آپ سے شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
یہ کہ جب بھی گاڑی میں بیٹھنے لگ جاؤ تو گاڑی کا نمبر ضرور دیکھو بہتر یہی ہے کہ ڈرائیور کا نام اور اتہ پتہ بھی معلوم کر لینا ۔ ساتھ بیٹھے مسافروں میں سے کم از کم کسی ایک کا نام اور اتہ پتہ معلوم کر لینا ۔

اگر آپ کے پاس کسی پرس وغیرہ میں رقم یا قیمتی چیز ہو تو گاڑی کی سیٹ پر یس فرنٹ پر کہیں بھی مت رکھنا ۔
میری خوش قسمتی تھی کہ میرے ساتھ یہ واقعہ چترال میں پیش آیا تھا جہاں عموما لوگ گمشدہ چیزوں کو واپس کرنا اپنی زمہ داری سمجھتے ہیں یہاں کوئی گاڑی کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا نہ ہی کسی کی گاڑی سے کوئی چیز اٹھایا جاتا ہے آج مجھے چترالی ہونے پر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میرا تعلق چترال سے ہے جہاں کے لوگ چار پانج لاکھ روپے کی خطیر رقم ملنے پر خوش نہیں ہوتے بلکہ واپس لوٹانے تک پریشان رہتے ہیں رب سے دعا ہے کہ چترالیوں کی یہ خصلت ہمیشہ قائم رہے ۔
چترالی زندہ باد
چترال پائندہ باد

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email