نئے ڈی سی صاحب ۔۔۔ ہیرو یا زیرو

سابق ڈی سی چترال اسامہ احمد وڑائچ شہید کی اچانک جدائی نے اگرچہ ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جوکہ شاید ہی پر ہوسکے اب چونکہ اسامہ شہید کی خالی جگہ پر کرنے کرنے لیے نیا ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا گیا لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ نیا ڈی سی صاحب صرف اسامہ شہید کی خالی ہونی والی کرسی ہی پر کرے گا یا عوام کے دلوں میں اسامہ شہید کے لیے جو قدر و منزلت اور عزت تھی اس میں بھی حصہ دار بنے گا ۔۔۔۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ہیرو اور زیرو بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتا جیسا کہ اسامہ شہید نے صرف چودہ مہینوں میں کئی سالوں کا کام کردیا جواب میں عوام نے اسامہ شہید کو اپنا ہیرو قرار دے دیا وہ بیشک دنیا سے چلے گئے اجل نے بے وقت اسامہ شہید کو ہم سے چھین لیا لیکن ان کی محبت کو ہمارے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا جہاں بھی اسامہ شہید کا ذکر ہوگا وہاں چترال کا کوئی بھی باشندہ اداب و احترام بجا لاتے ہوئے کہے گا کہ اسامہ تو میرا ہیرو تھا اب قابل غور بات یہ ہے کہ اسامہ ہیرو کیسے بنا ؟ یہ سوال شاید ہمارے نئے ڈپٹی کمشنر صاحب کے ذہن میں بھی ہوگا چلیں میں بتائے دیتا ہوں کہ اسامہ شہید جب چترال تعینات ہوئے تھے تو چترال کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے عوام منشیات فروشوں، ٹمبر مافیا،ناجائز منافع خوروں اور میڈیکل مافیا کے ہاتھوں بے بس تھی زائد المیعاد ادویات فروخت ہو رہے تھے ہسپتالوں میں صفائی کا انتظام ناقص تھا ہوٹل کچرا منڈی بنے ہوئے تھے قبضہ مافیا نے سڑکوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دکاندار اپنی من مانیوں میں مصروف تھے تو ڈرائیوروں نے سرکاری کرایہ نامے کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا تھا ایسے حالات میں اس مرد قلندر نے تمام مجرموں کے خلاف بیک وقت اپریشن شروع کر دیا اور بہت ہی قلیل مدت میں عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ ڈی سی عوام کے لیے ہے اور چترال میں ڈسٹرکٹ انتظامیہ نام کی کوئی چیز موجود ہے ورنہ اس سے پہلے تو عوام کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ ڈی سی کس بلا کا نام ہے اوریہ کیا کام کرتا ہے ۔ اسامہ شہید کا نام چترال میں ہمیشہ زندہ رہے گا نئے تعینات ہونے والے ڈی سی شہاب یوسفزئی صاحب سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسامہ شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سب سے پہلے منشیات فروشوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گا اس کے بعد باقی جرائم پیشہ افراد کو بھی معاشرے پر ظلم وستم کرنے سے روک کر اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے گا ۔ یقینا ڈی سی شہاب صاحب کو ہمیشہ چترال میں نہیں رہنا اب اس کو جتنا وقت ملے اس وقت کو اسامہ شہید کی طرح عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کرکے عوام کے دلوں میں اپنے لیے عزت و احترام پیدا کرکے رخصت ہو جائے تو چترالی قوم اپنے محسنوں کو کبھی بھولیں گے۔ ڈی سی صاحب! یہ آپ کے اوپر منحصر ہے کہ آپ نے اسامہ شہید کی طرح ہیرو بننا ہے یا اس سے پہلے والوں کی طرح زیرو۔ ہیرو بنوگے تو ایک مقام ملے گا چترال سمیت پاکستان بھر میں لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور زیرو بنو گے تو بس تھوڑا سا پیسہ جمع کروگے اور کچھ نہیں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ ہیرو ہیں یا زیرو مجھے امید ہے کہ میں جب اگلا مضمون لکھوں گا تو عنوان یہ ہوگا کہ ہمیں ہمارا ہیرو مل گیا

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے