چمکتے تارے ۔۔۔۔ آخری قسط

وادی  چترال میں ہر تیسرے چوتھے مہینے کوئی نہ کوئی ایسا مریض سامنے آتا تھا جو غربت کی وجہ سے علاج معالجہ سے قاصر ہوتا تھا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے بعض لوگ ان میں سے ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس سرے سے علاج کے لئے پیسے ہی نہیں  ہوتے جبکہ بعض ایسے لوگ ہیں جو علاج کراتے کراتے زندگی بچانے کی خاطر سارا کچھ خرچ کرکے مزید چند دن جینے کی امید لیکر مجبورا مدد کی اپیل کرتے ہیں ایسے موقع پر جب ایک انسان  بے بس ہوکر زندگی کی بھیگ مانگ رہا ہوں تو دل ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے خاص کر اس وقت جب آپ اس کے لئے کچھ کرنے کے قابل نہ ہو ہر شخص اپنی طرف حسب استطاعت مدد ضرور کرتا ہے لیکن اس اپیل کو لوگوں تک پہنچانا اور پھر مریض کا علاج کرانا کافی وقت کا تقاضا کرتا ہے ہماری کوشش تھی کہ ایسے مریضوں کے لئے فنڈ ہر وقت دستیاب ہونا چاہئیے تاکہ بروقت کسی مستحق مریض کا علاج معالجہ کروایا جاسکے فنڈ ہر وقت دستیاب ہونے کے لئے ہمیں  ایک فلاحی تنظیم کی ضرورت تھی جس کے لئے ہم گزشتہ تین چار سالوں سے سوچ و بچار اور مشورے کرتے آرہے تھے پچھلے سال  دوستوں کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرکے ہم نے تنظیم کا قیام عمل میں بھی لایا اور اس تنظیم کے ذریعے کافی مریضوں کے ساتھ مدد بھی کی لیکن بدقسمتی سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرنے والے ہمارے تمام دوست صرف زبانی یقین دہانی سے آگے نہیں بڑھ سکے اور یوں تنظیم کے پاس جمع شدہ فنڈ ختم ہوگئے۔
اس دوران جب ہم تنظیمی لحاظ سے شدید مشکلات سے دوچار تھے اللہ پاک نے ایک نوجوان کو ہمارے لئے ذریعہ بنایا وہ نوجوان سجاد علی جاد صاحب ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں  نہ صرف ہمیں سہارا دیا بلکہ ایک نیا جذبہ اور حوصلہ بھی دیا اور یوں ہم تنظیم کی رکتی گاڑی کو پھر سے دھکا دینے کے قابل ہوگئے سجاد صاحب صحت کے نام سے ایک تنظیم بنا چکے تھے اور اس کے ذریعے راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں جانے والے مستحق مریضوں کی مدد کر رہے تھے  اس سال کے شروع میں یا شاید پچھلے سال کے آخر میں سجاد صاحب نے تنظیم کا باقاعدہ آغاز کیا اور اب اس تنظیم کے ذریعے چترال کے مستحق مریضوں کی اپنی بساط کے مطابق مدد کر رہے ہیں  جن کے پاس علاج معالجے کے لئے پیسے کا مسئلہ نہیں ہوتا سجاد صاحب ان کو بہتر مشورہ دے رہے ہیں  کہ مریض کا بہترین علاج کس ہسپتال میں  ہو سکتا ہے اور اس بیماری کا قابل ترین ڈاکٹر کون ہے کہاں ہے یوں ہمارے بہت سارے بھائی سجاد بھائی کے مشوروں پر عمل کرکے نہ صرف بہتر علاج کراسکتے ہیں  بلکہ بغیر معلومات کے ہسپتالوں میں اور ڈاکٹروں کے پاس چکر لگا لگا کر پیسے برباد کرنے سے بھی بچ جاتے ہیں اس نفسا نفسی کے دور میں سجاد بھائی راولپنڈی اسلام آباد میں رہ کر چترال سے آئے ہوئے بہت سارے مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں غریب مریضوں کے ساتھ تعاون اور ان کے مفت علاج کی بھی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اور اموات کی صورت میں میت بالکل فری چترال بھیجنے کا بندوبست بھی کر رہے ہیں حال ہی اسلام آباد کے ہسپتال میں جان بحق ہونے والے ایک غریب شخص کی لاش بالکل فری چترال بھیجنے کے لئے ایمبولنس کا انتظام کیا اس کے علاؤہ بھی ان کی خدمات اتنی ہیں کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔
لیکن بات پھر وہی پر آکر رک جاتی ہے کہ ایک دو آدمی اپنے طور پر جتنی بھی کوشش کرے آخر کار انہیں معاشرے کے درد دل رکھنے والے حضرات کی ضرورت پڑتی ہے مذکورہ شخصیات تین مختلف شعبوں میں چترالی قوم کے لئے خدمات سر انجام دے رہے ہیں  قاری فیض اللہ صاحب کے لئے ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں باقی ان کو ہمارے تعاون کی ضرورت نہیں رہے گی البتہ محافظ بیت الاطفال اور صحت فاؤنڈیشن معاشرے کے ذمہ دار اور احساس و شعور رکھنے والے افراد کی توجہ اور تعاون کے بغیر نہیں چل سکتے کیونکہ ایک تو ان کے پاس اتنے وسائل نہیں  ہیں دوسری طرف یہ دونوں تنظیمیں ابتدائی مراحل میں ہیں اس وقت ہم سب کو آگے بڑھ کر مولانا عماد الدین اور ڈاکٹر سجاد علی جاد صاحب کا ہاتھ بٹانا چاہئیے۔
ہمارے معاشرے میں کوئی معصوم غربت کی وجہ سے  تعلیم و تربیت سے محروم نہ رہے یہ مولانا عماد کا مشن ہے اور ہمارے معاشرے میں کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرے یہ سجاد علی جاد کا مشن ہے یہ دونوں عظیم مشن پر کام کر رہے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کو اپنے اپنے مشن میں کامیاب فرمائے اور ہم سب کو اس مشن میں حصہ دار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
Print Friendly, PDF & Email