کھربوں کی عزت اور صرف چار کروڑ

سینٹ الیکشن میں ممبران کی خرید و فروخت یا ووٹ کی خرید و فروخت کوئی نہیں بات نہیں۔  ووٹر چاہے جنرل الیکشن کے ہو یا بلدیاتی الیکشن کے ،سینٹ کے ہو یا چیئرمین سینٹ کے ، ہر دور میں بکنے والے بکتے رہے۔ ووٹ بھیجنے والے بھیجتے رہے۔ لیکن اس بار کچھ زیادہ ہی شور مچایا گیا کہ ممبران بک گئے یاخریدے گئے ۔ دراصل ووٹ جب ضمیر کے خلاف استعمال کیا جائے تو یہی بدیانتی اور بدعنوانی ہے جس کی حوصلہ شکنی ہمیشہ ہونی چاہیے ۔سینٹ کے الیکشن میں اس بار کے پی کے میں جو گیم کھیلا گیا ،انتہائی حیران کن ہے۔

پی پی پی کے پانج ممبران نے دو سینیٹر منتخب کر کے صوبے کی اکثریتی پارٹی کو دن میں تارے دکھا دئیے۔ لیکن ضمیر خریدنے کے اس بدترین عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے ارکان بک گئے تو خریدار پی پی پی والے تھے اور پنچاب میں نون کے ارکان بک گئے اور خریدار پی ٹی آئی والے تھے ۔ممبران کی اس بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور بکنے والے ارکان کے خلاف کاروائی ہوگی۔ کل چیئرمین تحریک انصاف نے تمام ووٹ فروش ممبران کے نام سامنے لے آئے اور ان تمام کو پارٹی سے نکال دیا ۔ساتھ ساتھ شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا ۔انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جن ممبران کے بارے میں شکوک شبہات تھے۔ ان کو پہلے بھلا کر ان سے سوال و جواب کرنا چاہئے تھا۔ پارٹی کے اندرونی معاملات کو اچھالنے سے پہلے اپنے ممبران کی تفتیش کر لینا چاہیے تھا اور اگر وہ واقعی مجرم ثابت ہوجاتے، پھر سرعام ان کے ناموں کا اعلان کرکے پارٹی سے نکال دینا چاہئیے تھا لیکن خان صاحب نے بیک جنبش قلم بیس ارکان پر الزام لگا دیا ہے  کہ انہوں نے ووٹ بھیج دئیے ہیں ۔اس صورت حال میں اگر کوئی ممبر سچا اور بے گناہ بھی ثابت ہو جائے تو اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچتا کیونکہ پوری دنیا کے سامنے جب ایک شخص بے ضمیر اور کرپٹ قرار دے کر پارٹی  سےنکالا جائے پھر اسے شوکاز نوٹس جاری کر دیا جائے کہ اب صفائی پیش کرو تو صفائی پیش کرکے بھی وہ پارٹی میں نہیں رہ سکتا ۔ایک پارٹی ممبر کا اگر پارٹی ووٹ نہ دینا جرم ہے اور واقعی جرم ہے تو پھر اس جرم کا ارتکاب خود خان صاحب نے بھی کیا ہے خود خان صاحب اپنے پارٹی کے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا اس پر بھی سوال بنتا ہے جبکہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر خان صاحب کے الزامات درست نکلے اور ووٹ بھیجنے والے  پارٹی سے نکال دئیے جائیں تو کیا واقعی یہ کرپٹ افراد کے خلاف ایکشن سمجھا جائے گا ؟ اگر ایسا ہے تو پھر پارٹی   میں موجود دیگر کرپٹ افراد خان صاحب کے نور نظر کیوں ہیں؟ ان کو کیوں نہیں چھیڑا جاتا ؟ اور اگر کسی کے خلاف الزامات درست ثابت نہیں ہوئے تو خان صاحب اس بدترین الزام تراشی کا ازالہ کس طرح کر سکے گا ؟  معافی مانگے گا یا پھر ان لوگوں کے خلاف ایکشن  لے گا جنہوں نے ان افراد کے خلاف خان صاحب کو اکسایا ہے ؟ الزامات کا سامنا کرنے والوں میں ایم پی اے بی بی فوزیہ بھی شامل ہے جس نے آج ہی قرآن پاک پر ہاتھ کر اس الزام کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ پرویز خٹک کی سازش قرار دے دیا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ جھوٹ نہیں بول سکتی۔ لہٰذا ہمیں یقین ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں اور اگر ہمارے دعوے کے مطابق بی بی فوزیہ ان الزامات سے پاک ہیں تو پھر پوری دنیا کے سامنے دختر چترال کا نام لے کر ان پر بدعنوانی کا الزام لگانے پر ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں اہلیان چترال اس الزام تراشی کا بدلہ بہت جلد پرویز خٹک اور خان صاحب سے لے لیں گے

Print Friendly, PDF & Email