کیا پھر کسی حادثے کا انتظار کریں؟؟

ہمارے ملک میں جب بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو حکمرانوں سے لیکر عوام تک ہر خاص و عام مغموم نظر آتا ہے اور ہر زبان پر ہائے افسوس یا صدافسوس کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ حکومت ایسے واقعات اور سانحات کو روکنے کےلیے مختلف تدابیرکا اعلان کرتی ہے۔ واقعہ اگر دہشت گردی کا ہو تو دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے بلند و بانگ دعوے ہوتے ہیں۔ تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دی جاتی ہے اور پھر کچھ دن بعد سب اس سانحے کو یکسر بھول جاتے ہیں ۔ ان تدبیروں کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی نہیں سوچتا اور یہی حال عوام کا بھی حال ہے بس دو چار دن ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر اظہار افسوس اور چہرے پر افسردگی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن چند دن بعد سب کچھ بھلا کر پھر کسی نئے حادثے اور سانحے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ملک بھر کی طرح وادی ٔچترال میں بھی ایسے سانحات اور حادثات پر چند دن دل کھول کر اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔ بچھڑنے والوں کی یاد میں تعزیتی پروگرامات ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔مرثیے لکھے جاتے ہیں ۔سانسیں روک دینے والے مضامین لکھے جاتے ہیں اور حکومت سے ایسے واقعات اور حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور یوں چند دن بعد اس سانحے کو بھلا کر پھر کسی نئے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔اللہ کے فضل سے چترال میں دہشت گردی کے واقعات تو نہیں ہوتے البتہ یہاں اکثر و بیشتر حادثات سڑکوں پر ہی ہوتے ہیں۔ چترال کے اندر سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے جس کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتےہیں خاص کر پشاور ٹو چترال روڈ جو کہ انتہائی خطرناک تو ہے ہی اس پر طرہ یہ کہ اس خطرناک روڈ پرعموماً رات کو سفر ہوتا ہے ۔اس سے پہلے بھی کئی بار ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ،ڈسٹرکٹ پولیس چترال ،ایم این اے اور ایم پی ایز صاحبان کی توجہ اس سنگین مسٔلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ سینکڑوں قیمتی جانیں اس خطرناک سفر کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔کتنے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کتنی مائیں اپنے لخت جگر سے محروم ہوگئیں ۔کتنی بیویاں بیوہ ہوگئیں اور کتنے معصوم بچے ماں باپ کے دست شفقت سے محروم ہوگئے لیکن ہم ایک حادثے کے بعد دوسرے حادثے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم اس خطرناک سفر پر پابندی کی بات صرف اس دن کرتے ہیں جب کئی پیاروں کی لاشیں خون میں لت پت چترال پہنچائی جاتی ہیں۔ ان حادثوں کی سب سے بڑ ی وجہ پشاور سے چترال رات کے وقت سفر ہے اور یہ سفراسی فیصد غیر محفوظ ہے ۔ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر رات کے اندھیرے میں ایک انتہائی خطرناک سفر پر نکلتے ہیں اور پھر حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس روڈ پر اکثر حادثات ڈرائیوں کی لا پروا ہی کی وجہ پیش آتے ہیں۔ ایک ڈرائیور دن بھر ڈرائیونگ کرکے تھک ہار جانے کے بعد رات کو آرام کرنے کی بجائے گاڑی میں اٹھارہ مسافروں کو بٹھا کر چترال کی طرف روانہ ہوجاتا ہے ۔رات کےوقت سفر اور پھر نیند کا غلبہ ڈرائیور حضرات کی آنکھ لگ جانا کوئی اچھنبے بات نہیں۔ دوران سفر نیند کے غلبے کی وجہ سے یہ حادثات پیش آتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایک حادثے کے بعد دوسرے کا انتظار چھوڑ دے اور ذمہ دراں کو ان حادثات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے پر مجبور کرے تاکہ آئے روز پیش آنے حادثات میں کچھ نہ کچھ کمی لائی جاسکے ۔اس سلسلے میں سب سے اولین کام رات کے وقت سفر پر پابندی لگوانا ہے کیونکہ رات کے وقت حادثات کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ وزیر اعلی کے پی کے ،صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ،آئی جی پولیس کے پی کے ،ڈی سی چترال اور ڈی پی او چترال کو چاہیے کہ ان حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے اور پہلا قدم رات کے وقت سفر پر پابندی کی صورت میں اٹھائے تاکہ اس خطرناک راستے پر قیمتی جانوں کے ضیاع کو کم سے کم کیا جا سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے