میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

ایک دور وہ تھا جب چترال میں منشیات فروشی کو کوئی اہم اور قابل غور مسلہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا سن دو ہزار گیارہ میں جب میں نے منشیات کی لت میں مبتلا نو عمر نوجوانوں کو دیکھا تو مجھے بڑا افسوس ہوا کہ ایک بچہ اگر دس گیارہ سال کی عمر میں منشیات کا عادی بن جائے تو آگے کیا بنے گا میں نے سوچا کہ اس حوالے سے میں کیا کردار ادا کرسکتا ہوں ایک طرف میں ملک سے دور تھا اور دوسری طرف ضلع میں تعینات آفیسرز سے کوئی اْمید نہیں تھی کافی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ پہلے میں اس مسئلے کو ہائی لائٹ کروں اور چترال کے افسران بالا کو یہ باور کرانے کی کوشش کروں کہ منشیات چترال کا سب سے بڑا مسلہ ہے اس کے لیے میں نے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا سوچا وقتا فوقتاً اس پر لکھتا رہا لیکن شروع شروع میں اکثر دوستوں کو منشیات کے خلاف میری کوششیں بے سود لگتی تھی کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ منشیات کے خلاف سوشل میڈیا میں پوسٹ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو براہ راست متعلقہ اداروں سے رابطہ کرے ابتدا میں مجھے بھی بہت مایوسی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ نوجوان اس سلسلے میں ساتھ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں لیکن لکھتا رہا بلا آخر دوہزار پندرہ کے شروع میں میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب میرا سوشل میڈیا میں کوئی کام نہیں رہے گا جب تک میں اس سنگین مسئلے کو چترال کے خاص و عام ،انتظامیہ، پولیس اور گورنمنٹ کے سامنے ایک اہم مسئلے کے طور پر اجاگر نہ کروں۔دو ہزار پندرہ کا آغاز میں نے سوشل میڈیا میں منشیات فروشوں کے خلاف مہم سے کیا اور روزانہ کی بنیاد پر اس پر لکھتا رہا۔ چترال میں ہر نئے تعینات ہونے والے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر کو چترال پہنچنے سے پہلے اس مسئلے کی طرف متوجہ کرتا رہا میں اللہ پاک کا شکر گزار ہوں کہ آج منشیات کے خلاف مہم میں میرے ساتھ ایک کارواں ہے۔ کل ایف ایم 97 میں معزز ڈی پی او چترال منصور آمان صاحب تشریف فرما تھے۔ میں نے سوچا کہ آج میں دیکھنا چاہوں گا کہ عوام اس مسئلے میں کتنا حساس ہے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ہر دوسرے تیسرے کالر نے ڈی پی او صاحب کی توجہ منشیات فروشوں کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ جب تک عوام کو کسی مسئلے کی سنگینی کا احساس نہ ہو تب تک پولیس کچھ نہیں کرسکتی اور الحمدللہ ڈی پی او صاحب خود بھی اس اہم مسلے کو پوائنٹ آؤٹ کرچکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چترال میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کا اگر کوئی کام ہے تو وہ صرف غیر قانونی دھندہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے سوا کچھ نہیں۔انہوں نے اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ چترال میں اس وقت صرف دو مسائل درپیش ہیں۔ ایک کم سن موٹر سائیکلسٹ اور دوسرا منشیات فروش۔ اگر دیکھا جائے تو یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ ڈی پی او چترال نے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا ہے لیکن میں اب بھی کہتا ہوں کہ عوام اور ڈی پی او صاحب نے اس مسئلے کو جتنا اہم سمجھا ہے مسئلہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔گزشتہ دنوں ایک منشیات فروش سے ہیروئن برآمد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ منشیات فروش ہماری نوجوان نسل کے ساتھ انتہائی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔چترال کے معروف نیوز ویب سائٹ ذیل کے ذریعے میں اس اہم مسلے کو قابل توجہ سمجھنے اور اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے پر ڈی پی او چترال کا مشکور ہوں۔ ڈی پی او چترال جناب منصور آمان صاحب کی گفتگو سن کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موصوف نہایت ہی فرض شناس قابل اور ایماندار آفیسر ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت سے کام کرنے کی مکمل استعداد رکھتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ عوام اس موقع کو غنیمت جانیں اور چترال میں منصور آمان جیسے دیانت دار آفیسر کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر منشیات فروشوں کی بیخ کنی میں کردار ادا کریں۔اپنے اپنے علاقوں میں موجود منشیات فروشوں کی نشاندہی کرے۔ورنہ یہ ناسور پھیلتا جائے گا اور خدا نہ کرے کہ ہمیں چترال بازار اور ملحقہ ندی نالوں کے پاس فرزندان چترال ہیروئین اور آئس کا نشہ کرتے نظر آئے گے۔خدارا اب بھی وقت ہے جاگ جائیے اپنی اولاد پر رحم کرے اور ان پر نظر رکہیں آخر میں ایک اور اہم مسئلے کی طرف ڈی پی چترال کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہوں کہ چترال کے گاؤں گاؤں میں منشیات پہنچانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو گھریلو سامان، برتن ،قالین اورچائے پتی وغیرہ بھیجنے کے نام پر گاؤں گاؤں منشیات پہنچا رہے ہیں۔ان تاجر نما منشیات فروشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ان لوگوں میں ستر فیصد منشیات فروش ہیں۔ایک بار مجھے ایک ایسا ہی شخص ملا۔وہ ڈنر سیٹ بھیج رہا تھا اور وہ بھی صرف ایک سیٹ۔ میں نے پوچھا کتنے کا دے رہے ہو کہنے لگا پینتیس سو۔ میں جانے لگا تو اس نے آواز دی کہ آپ کتنا دیں گے۔میں نے کہا کہ آپ نے جتنے کا لیا ہے۔اس سے سو دو سو زیادہ لے لیں لیکن یہ آپ بہت زیادہ بتا رہے۔بلاخر وہ پندرہ سو پر آگئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے ایک ڈنر سیٹ ایک شخص چترال سے لے کر نکلتا ہے اور آٹھ سو روپے کرایہ دے کر وہ چترال کے آخری کنارے میں پہنچ جاتا ہے اور پندرہ سو کا سامان بھیجنے کی ناٹک کرتا ہے۔ دو دن تو اس کے وہاں ہی نکل گئے۔ ایک دن آنے جانے میں لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین دن لگا کر پندرہ سو روپے کے سامان بھیجنے کے لیے اتنے دور کا سفر دنیا کا کوئی کم عقل ترین تاجر بھی نہیں کرے گا۔میں نے جب اس پر حیرت کا اظہار کیا تو ایک دوست نے بتایا کہ برتن وغیرہ یہ لوگ صرف دکھانے کے لیے لاتے ہیں۔ ان کا اصل کاروبار منشیات کا ہے جب تک ان کا منشیات نہیں بکتا تب تک یہ لوگ پانج سو کی چیز پانج ہزار بتاتے ہیں اور جب منشیات فروخت ہو جائے تو یہ لوگ وہی چیز پانج سو میں دے کر چلے جاتے ہیں لیکن جب مجھے دوست نے یہ سب بتایا تب تک برتن فروش نما منشیات فروش علاقے سے نکل گیا تھا۔

 

Print Friendly, PDF & Email