کریڈٹ کی جنگ ۔ ایک اور عجوبہ

گزشتہ کئی سالوں سے وادی چترال بجلی کی نعمت سے محروم ہے اس دوران یہاں کے عوام نے کئی اہم ناموں کو اور پارٹیوں کو بطور ممبر آزمانے ک کوشش کی لیکن عوام کی قسمت نہیں بدلی۔ برق رفتار ترقی کے اس دور میں بجلی جیسی نعمت سے محرومی یقیناً کسی بدقسمت قوم کے حصے میں ہی آتی ہے ۔یہاں سے چترال کی تقدیر بدلنے کے بڑے بڑے دعوے دار اُٹھے جنہوں نے بلند بانگ دعوؤں اور جھوٹے وعدوں سے عوام کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ممبر اسمبلی بھی منتخب ہوئے ۔چترال ٹاؤن میں بجلی کی فراہمی میں مکمل ناکامی کے بعد ایک این جی او کو آگے کیا گیا وہ کئی سال تک عوام کو بجلی کے لیے آواز اٹھانے سے روکے رکھا۔ اس این جی او نے گولین گول ٹو میگاواٹ کے نام پر پراجیکٹ شروع کرکے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کی اور عوام نے بھی اس این جی او کے دو میگاواٹ سے اُمیدیں وابستہ کرکے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ڈیڑھ دو سال بعد جب پراجیکٹ مکمل ہوگیا تو پتہ چلا کہ یہ چند لوگوں نے پیسے بنانے کے لیے شروع کیا تھا اس پروجیکٹ سے چترال ٹاؤن کو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ سکا نتیجتاً یہ پروجیکٹ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کی مصداق بن گیا۔ چترال ٹاون گزشتہ آٹھ دس سالوں سے بجلی کی شدت قلت کا شکار ہے۔ اس دوران یہاں شہزادہ محی الدین نیشنل اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔سن دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پانج سال وہ ممبر رہے ۔ان کے ساتھ سلیم خان اور حاجی غلام بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے لیکن بدقسمتی سے اس سنگین مسٔلے کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس کے بعد دو ہزار تیرہ میں شہزادہ افتخار الدین اپنے والد گرامی کے مسند پر متمکن ہوئے۔ حسب سابق سلیم خان ان کے ساتھ دوبارہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور اپر چترال سے شعلہ بیان مقرر سید سردار حسین نمائندہ منتخب ہوئے ۔اس دوران چترال قدرتی آفات کی زد میں رہا۔ جس کی وجہ سے پہلے ادوار کی بنی ہوئی رہی سہی سڑکیں پل اور بجلی گھر تباہ ہوگئے ۔ہمارے ممبران کی مستعدی دیکھئے کہ اب تک سیلاب سے متاثرہ سڑکوں پلوں اور بجلی گھروں کی بحالی ممکن نہ ہوسکی۔ اپر چترال کے بیس ہزار صارفین کو بجلی فراہم کرنے والا واحد ریشن پاؤر ہاؤس سیلاب میں بہہ گیا۔ دو سال گزرنے کے باوجود اب تک صوبائی حکومت اور ممبر صوبائی اسمبلی عوام کو دھوکہ دیتے آر ہے ہیں۔ دو سال سے اپر چترال میں تاریکی کا راج ہے ۔عوام احتجاج کر کر کے بھی تھک گئے لیکن ممبران اسمبلی اور صوبائی حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی ۔گولین گول ٹو میگاواٹ کا تماشا ختم ہوتے ہی گولین گول ہائڈرو پاور پلانٹ سے تیس میگاواٹ چترال کو دینے کی خوشخبریاں شروع ہوگئیں ۔ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے صاحب نے کئی بیانات جاری کیے جس کے مطابق دسمبر دو ہزار سترہ میں گولین گول سے چترال کو بجلی فراہم کیا جانا چاہئیے تھا لیکن پھر کیا ہوا کہ عوام کو ایک بار پھر مامو ں بنانے کی کوششیں شروع ہوگئیں کریڈٹ کی جنگ نے چترال کے عجائبات میں ایک اور عجوبے کا اضافہ کردیا ۔اس عجوبے کے ذریعے بغیر ٹرانسمشن لائن کے چترال کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ ہمارے معزز ایم این اے صاحب فرماتے ہیں کہ وفاق کی جانب سے کوئی مسٔلہ نہیں وفاق اپنے وعدے کے مطابق چترال کو تیس میگاواٹ دینے کے وعدے پر قائم ہے ۔لیکن صوبائی حکومت اپر چترال کے اپنے بیس ہزار صارفین کو بجلی فراہم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ اگر پیڈو کے ٹرانسمشن لائن سے اپر چترال کو بجلی کی فراہمی شروع ہوگئی تو صوبائی حکومت کریڈٹ سے محروم ہوجائیگی اور اپر چترال کو بجلی کی فراہمی کا سارا کریڈٹ وفاق کو جائے گا۔ ایم این اے صاحب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر وفاق اپر چترال کو بجلی دینے میں سنجیدہ ہے تو ابھی تک ٹرانسمشن لائینیں کیوں نہیں بچھائی گئی یہ کونسی سنجیدگی ہے کہ لائن کسی اور کے ذمے ڈال کے خود صرف کریڈٹ لینے کی تیاری کرے۔ ایم این اے صاحب فرماتے ہیں کہ میں گزشتہ نو مہینے سے صوبائی حکومت کے ساتھ بات چیت کی کوشش کر رہا ہوں لیکن صوبائی حکومت اس مسلٔے میں سنجیدہ ہی نہیں۔ ایم این اے صاحب نو مہینے صوبائی حکومت کے ساتھ ضائع کرنے کے بجائے اگر ٹرانسمشن لائینیں بچھانے میں لگاتے تو اب تک لائینیں بچھائی جا چکی ہوتی افسوس اس بات پر ہے کہ عوام کے لیے نہ وفاق سنجیدہ ہے نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی ہمارے ممبران، سب کو کریڈٹ چاہئیے اپنی کریڈٹ کے لیے کئی سالوں سے عوام کا جینا دوبھر کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ایم این اے صاحب کی سادگی دیکھ کہ خٹک سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ خٹک اس سلسلے میں تعاون کرے ۔خٹک صاحب کو کیا معلوم کہ چترال کے لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئیے کہ جب تک عوام میں اپنا حق چھین کر لینے کی طاقت نہیں ہوگی۔ تب تک نہ افتخار سے کام ہوگا۔نہ سردار حرکت میں آئے گا ۔نہ صوبائی حکومت کچھ کرے گی ۔نہ وفاق ہمارے مسائل حل کرے گا کیونکہ ہم جب تک ضرورت سے زیادہ شریف رہیں گے۔ تب تک ہم محروم رہیں گے ۔یہ عوام کی غلطی ہے کہ عوام ان نمائندوں اور ان وزرا ور پارٹی قائدین کو آنکھیں بند کرکے کارکردگی دیکھے بغیر کندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہے خدارا ان کو کندھوں سے اُتارو اور ان کا گریبان پکڑو۔ اگر تمھیں بجلی چاہئیے۔ اگر تمہیں سڑکیں چاہئیے، اگر تمہیں پلوں کی ضرورت ہے، اگر تمہیں چترال کی ترقی چاہئیے۔ ورنہ خٹک کی طرح دوسرے پارٹی قائدین بھی آکر بھرے مجمعے میں ریشن بجلی گھر میں کام تیز کرنے کی ہدایت جیسے بیانات کی بوچھاڑ کریں گے اور لوگ ایسے بیان پر پی ٹی آئی والوں کی طرح واہ واہ اور زندہ باد کے نعرے لگائیں گے۔ اب بھی وقت ہے جاگو اور اپنا حق چھین کے لے لو ۔ان نمائندوں اور حکومتوں کے جھوٹے وعدوں کی آس میں مت رہو ورنہ دوہزار تیس میں بھی بجلی نہیں ملے گی۔

Print Friendly, PDF & Email