چترال میں چمچہ گیری نظام

پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں غریب عوام پر چوہدریوں، وڈیروں، نوابوں اور جاگیر داروں کا کسی نہ کسی طرح تسلط قائم رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کے نوے فیصد لوگ ان چوہدریوں ،وڈیروں، نوابوں اور جاگیر داروں کے زیر اثر ہیں۔ یہ لوگ مختلف شہروں میں لوگوں کو اپنے ماتحت رکھنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ دوردراز علاقوں پنجاب کے دیہی علاقوں سندھ اور بلوچستان میں لوگوں کو ڈرا دھمکا کر غلام بنایا جاتا ہے اور شہروں میں سیاسی اثر رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر لوگوں پر اپنا رعب مسلط کیا جاتا ہے۔ اختلاف رکھنے والوں کو اغوا اور قتل بھی کیا جاتا ہے اور قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو پنگا لینے کا حوصلہ نہ ہو اگر دیکھا جائے تو یہی لوگ ہیں جو ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔اگر یہ بات درست ہے کہ چوہدری ،نواب وڈیرے اور جاگیردار عام عوام کو خوشحال دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں تو پھر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں چوہدریوں وڈیروں ،نوابوں اور جاگیر داروں کا عملی تسلط قائم نہیں وہاں پر ترقی کیوں نہیں ہوتی مثال کے طور پر آپ چترال کو لے لیجئے کہ چترال میں عملا کسی بھی فرد پر کسی چوہدری، نواب وڈیرے کا کوئی دباؤ نہیں ،نہ ہی یہاں پر جاگیر داروں کی من مانیاں کوئی سنتا ہے ،نہ ایسے لوگ کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔  ہرشخص سیاسی، مذہبی اور سماجی طور پر آزاد ہے ۔کسی کی غلامی کا یہاں کوئی تصور نہیں اس کے باوجود آج تک یہ ضلع پسماندہ کیوں ہے ؟؟؟؟؟ جہاں تک میں نے محسوس کیا میں چترال کی ترقی کی راہ میں چمچہ گیری نظام کو رکاوٹ سمجھتا ہوں ۔چترال میں کسی کو ڈرا دھمکا کر اپنا ماتحت بنانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس وجہ سے سیاست بازوں اور مقامی وڈیروں نے چمچہ گیری نظام کو یہاں خوب مضبوط بنایا ہوا ہے۔ اس نظام کے تحت یہ لوگ ہر گاؤں میں ایک ایسے فرد کو قابو کرتے ہیں جو علاقے میں اثر رسوخ رکھنے کے ساتھ ساتھ پیسے کا بھوکا ہو۔ سیاست باز ایسے لوگوں کو بہت جلد پہچانتے ہیں اور پھر پورے علاقے کو اس طرح کے چند لوگوں کے ذریعے فتح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان سیاست بازوں سے اپنا حصہ وصول کرکے علاقے میں ان کے لئے کام کرتے ہیں ۔اس نظام کو میں چمچہ گیری نظام کا نام دے رہا ہوں ۔چترال کے ہر گاؤں میں سیاسی چمچے اپنے محسنوں کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور ناکردہ ترقیاتی کاموں کو بھی ان کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہ سیاسی چمچے جہاں عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں اپنے محسن سیاسی لیڈر کو بھی یہ کہہ کر لولی پوپ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ علاقے کے سارے لوگ ہمارے ساتھ ہیں ۔اس زعم میں سیاست باز ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کرتے کہ لوگ مطمئن ہیں۔ منتخب ممبران تو سارا کھیل ان چمچوں کی مدد سے کھیلتے ہیں وہ سیاسی رشوت کے طور پر چمچوں کو فنڈ دے کر بھیجتے ہیں اور سیاسی چمچے اس فنڈ سے پانج فیصد علاقے میں لگا کر سب کو اپنے محسن کا شکرگزار بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔چترال کی ترقی کے لئے اس چمچہ گیری نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ورنہ یوں ہی ہمیں سبز دکھایا جاتا رہے گا۔ چمچہ گیری نظام کو ختم کرنے کے لئے سب کو اپنے علاقے میں ان افراد پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اکثر نمائندوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ علاقے میں نظر آئیں گے۔ وہ نہ تو عوامی نمائندہ ہوں گے  اورنہ ان کے پاس کوئی ذمہ داری ہوگی۔ ایسے لوگوں کو اگر بیچ میں سے نکال دیا جائے اور ترقیاتی کاموں کے لئے منتخب عوامی نمائندوں، کونسلرز، ناظم ،نائب ناظم تحصیل و ڈسٹرکٹ ناظم ،ایم این اے ،ایم پی اے وغیرہ دباؤ بڑھایا جائے تو یقینا کام ہوتے رہیں گے ورنہ چمچہ گیری نظام اس فلسفے پر قائم ہے۔

اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا

Print Friendly, PDF & Email