خود کشی کے موضوع پر سیمینار

گزشتہ دن چترال پریس کلب کی طرف سے پریس کلب میں ایک مہراکہ منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا "چترال میں خود کشی کے بڑھتے واقعات” معروف اسکالر پی ڈی چترال یونیورسٹی ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری اور آغا خان ہائیر سیکنڈری  سکول سین لشٹ کے اسٹوڈنٹ کاؤنسلر محمد جلال الدین شامل نے اس موضوع پر  جامع مقالے پیش  کیے۔ اس کے بعد حاضرین کو بھی موقع دیا گیا ۔

آخر میں جی ایم آغا خان ایجوکیشن سروس چترال  بریگیڈیئر ریٹائرڈ  خوش محمد صاحب  نے مقالات  اور دوسرے لوگوں کی آرا کا نچوڑ پیش کیا ۔چونکہ موضوع انتہائی اہم تھا اس لئے شرکت ضروری تھی ۔سو کھوار اہل قلم چترال کی طرف سے اس اہم پروگرام میں شرکت کی تاہم موقع پر کوئی رائے نہیں دے سکا جس کی وجہ وقت کی کمی تھی۔ خودکشی جیسے حساس اور اہم نوعیت کے موضوع پر صرف سیمینار منعقد کرنے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس ناسور پر قابو پانے کے لئے فیلڈ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چترال کے دانشوروں کو اس مسٔلے پر قابو پانے کے لئے وقتا فوقتاً ایک جگہ اکھٹا ہونا پڑے گا ۔کل کے مہراکے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عید کے بعد اس حوالے سے ایک ہفتہ منایا جائے گا جس میں مذہبی سکالرز بھی کو شامل کیا جائے گا تاکہ لوگوں میں خود کشی کے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کے متعلق آگاہی پیدا ہو سکے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ناسور کے خاتمے کے لئے ایک ہفتہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے طویل عرصے تک محنت کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں ضلعی حکومت ، ضلعی انتظامیہ ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ڈسٹرکٹ پولیس کے سربراہ کو اینوال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خودکشی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور مادہ پرستی ہے۔

 ہمیں ان دونوں چیزوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس سیمینار میں محترم خوش محمد صاحب نے بھی اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

 اب مادہ پرستی سے لوگوں کو دور کرنے اور اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرکے معتدل معاشرے کی بحالی کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہائی سکول کے بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن  ڈیپارٹمنٹ کو مل کر چترال کے تمام سرکاری و نجی سکولوں میں روزانہ کم از کم دس منٹ بچوں کی تربیت اور اسلامی تعلیمات کو ان کی ذہنوں میں بٹھانے کے لئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی اضافی فنڈنگ کے سکول و کالج سطح تک بچوں کو مادہ پرستی سے نکال کر معتدل معاشرے کی طرف لانے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں علماء کا رول بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سکول و مدارس کے طلبا میں اگر خود کشی کی شرح کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے بچے بالکل نارمل زندگی گزارتے ہیں اور خود کشی کی شرح بھی مدارس کے طلبا میں یا تو ہے ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ مادہ پرستی سے اجتناب اور اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے علاؤہ کچھ نہیں۔ ہمارے سکول اساتذہ کو اس سلسلے میں مدارس کے اساتذہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سکول کے بچوں کو بھی معتدل زندگی کی طرف واپس لا سکے ۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ خودکشی کے بہت سارے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وجوہات کچھ اور ہوتے ہیں لیکن انہیں بھی کم نمبر کا نام دے کر کہانی ختم کی جاتی ہے اور کچھ قتل کے واقعات کو بھی خود کشی کا نام دے کر جان چھڑائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ علاقے کے لوگوں کو پولیس کے سامنے رکاوٹ بننے کی بجائے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے ۔سکول و کالجز اور مدارس میں اس پر روزانہ لیکچر دئیے بغیر اس ناسور پر کنٹرول مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب لکھا ہوتا ہے۔ جس کی قسمت میں خودکشی لکھا ہوا ہے بھلا اس کو کیسے بچایا جا سکتا ہے ۔ایسے لوگوں معلوم ہونا چاہئیے کہ خودکشی کسی کی قسمت میں نہیں لکھا ہوتا یہ انسان کا اپنا عمل ہے صرف خودکشی ہی نہیں بلکہ کوئی بھی برائی تقدیر میں لکھا ہوا نہیں ہوتا ہر اچھا اور برا کام انسان اپنی سے مرضی سے کرتا ہے اور اسی کا اختیار اللہ نے بندے کو دے دیا ہے اگر سب کچھ اللہ کی طرف سے لکھا ہوا ہوتا تو پھر مرنے کے بعد حساب کتاب کا کوئی تصور نہیں ہی ہوتا ۔ خودکشی کو قران و حدیث میں حرام موت قرار دیا گیا ہے اور اس حرام موت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ اسلام میں تو موت مانگنا بھی ناپسندیدہ عمل ہے اگر صرف موت مانگنا ناپسندیدہ عمل ہے تو خود کو موت کے گھاٹ اتارنا کیسے درست اور تقدیر میں لکھا ہو سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email