فلاحی کوششیں

قوموں کی ذاتی زندگی اجتماعیت کی دین ہوتی ہے۔ ہر قوم کے اندر ٹھیکہ دار موجود ہوتے ہیں جن کا بنیادی نعرہ قوم سازی ہوتی ہے۔ جن کی ظاہری کوشش یا باتیں اس چیز کی دلالت کرتی ہیں کہ جس نظریے پر وہ عمل پیرا ہیں وہ اجتماعی فلاح کا ضامن ہے مگر حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے۔

دراصل یہ ٹھیکہ دار صرف اپنے بہبود کی خاطر تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کا بھی یہی خاصہ ہے جہاں اس نعرے کی تکمیل کے لئے اس قوی نظریے پر اکتفا کیا جارہا ہے کہ قوم آزادی کی ترویج سے پروان نہیں چڑھتی بلکہ آزادی کا قلع قمع کرنے سے چڑھتی ہے۔ اس امر کو تقویت دی جاتی ہے کہ اختلاف رائے کا خاتمہ کیا جائے اور یکساں سوچ پر زور دیا جائے تاکہ ترقی کے دروازے کھلیں۔ یہ کوشش بہ زور بازو کی جاتی ہے جس کا نتیجہ قوم کی زوال کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ افکار میں ہم آہنگی ضروری ہو سکتی ہے لیکن رائے میں ہم آہنگی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔

اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک میدان میں صرف ایک کمپنی کی اجارہ داری اس میدان میں مقابلے کا رجحان ختم کر دیتی ہے جس سے عوام کو ملنے والے خدمات یا سہولیات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ بہت ساری کمپنیوں کا وجود مقابلے کو فروغ دیتی ہے جس سے خدمات اور سہولیات کی فراہمی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ کو فروغ ملتا ہے اور یہی چیز عوامی بہبود کی ضمانت ہو سکتی ہے اور اگر اجارہ داری ہو تو عوام کو اسی پر سمجھوتہ کرنا پڑ جاتا ہے جو اسے میسر ہو یا مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل بنا اپوزیشن کے حکومت کی طرح ہے جو مطلق العنانی کے مترادف ہے۔

بالکل اسی طرح رائے میں اتفاق تنقید کے پہلوؤں کو دفنا دیتی ہے جس سے حالتِ موجودہ میں طمانیت کو فروغ ملتی ہے جس سے آگے بڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس مقصد کا حصول اجسام سے خوف کا پرچار کروا رہی ہے۔ خوف کی کوئی زنجیر نہیں ہوتی بلکہ خوف اپنے آپ میں زندان ہوتی ہے۔ مطلق العنانی جتنی مضبوط ہوتی ہے اتنے ہی خوف کے بت توڑنا محال ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک راستہ قوم کو حالتِ جنگ میں دھکیلنا ہوتا ہے تاکہ اس نظریے کو دہرایا جاسکے کہ جنگ کی حالت میں جمہوریت اور آزادیِ رائے ریاست کو کمزور کر دیتی ہے۔ اور ہم سے اچھی طرح کون جان سکتا ہے کہ ایسی صورت میں جنگ کون جیتتا ہے۔ وہی جیتتے ہیں جن کی فلاح کا انحصار جنگوں پر ہوتا ہے۔

لوگوں کو اپنی طرف اور اپنے نظریے کی طرف راغب کرنے کی دوڑ نے سب پر ایک جنون سا طاری کر دیا ہے۔ اسی جنون نے اس روایت کو ہوا دی ہے کہ جس میں حقیقتیں جھٹلائی جاتی ہیں ، تقسیم کو طاقت سمجھا جاتا ہے ، ذاتی مفادات کی جنگ چھڑتی ہے ، توقعات کی پرورش ہوتی ہے ، حاصل خمیازہ ہوتا ہے ، اور نتیجہ قابلِ رحم نکلتا ہے۔ یہ رویے ترقی نہیں ، تنزلی کی طرف لے جاتے ہیں۔

 

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email