تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے

فارسی کا ایک مقولہ ہے ، مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید، مشک وہ ہے کہ جس کی خوشبو خود ہی چار سو بکھر کر مشک ہونے کی خبر دیتا ہے، عطار کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ کارنامہ، صاحبِ کارنامہ کو لوگوں کی نگاہوں میں خود ہی ممتاز کر کے دکھاتا ہے، خود صاحبِ کارنامہ کو زبان پھاڑ کر،چیخ کر دھائیاں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، دوست تو دوست، حق بات کا اعتراف آپ کا دشمن بھی کرے گا، جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے، 10 جنوری 2018 کو چترال میں” مہرکہ” کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں ہمارا ایم پی اے محترم سردار حسین صاحب بھی مدعو تھے، اور اس پروگرام کے خصوصی مقرر تھے، اور ویسے بھی ایم پی اے صاحب میدان خطابت کے جوہر ہر اسٹیج پر خوب دکھاتے ہیں، اس پروگرام میں انہوں نے اپنی چار سالہ کارکردگی پر تفصیلا روشنی ڈالی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میرا ایک سال عدالتوں میں چکر کاٹ کر ضائعہوا، اور بقیہ تین سالوں میں ہم نے مستوج ڈسٹرکٹ کے لیے جو ترقیاتی کام کیے، سابقہ نمائندے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، موڑکہو سے تریچ تک، ورکوپ،رائین، شاگرام،کھوت ،مڑپ کی سڑکوں کی توسیع اور مرمت پر کام شروع ہو چکا ہے، بقول ایم پی اے، اپر چترال میں 12 پل زیر تعمیر ہیں،ان میں کا اکثر آر سی سی ہونے کی بناء پر ہر پل کی کم از کم لاگت 5 سے 7 کروڑ روپے ہے، ایم پی اے صاحب کی تقریر کا خلاصہ ختم ہوا، ظالمو ،! یہ سارے ترقیاتی منصوبے تمہیں کیوں نظر نہیں آتے، اگر یہی صورت حال ہے ، پھر تو ایم پی اے صاحب خراج تحسین کے مستحق ہے، لیکن یہ سڑکوں پر ترقیاتی کاموں پر مامور وہ مزدور کیوں نظر نہیں آتے، سوشل میڈیا کی اس آگ اگلتے ہوئے دور میں ، کہ جہاں ایک معمولی سی بات زبان سے نکلتے ہی وائرل ہو کر دنیا کے کونے کونے تک رسائی حاصل کر لیتی ہے، جہاں پرسنل لائف کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، ہمارے نمائندوں کے یہ ترقیاتی کام، یہ زیر تعمیر منصوبے ہماری نگاہوں سے اب تک اوجھل کیوں ہیں؟ کیا یہ سارے ہی منصوبے نمائندوں کے مخصوص فائلوں تک تو محدود نہیں ؟ یہ 12 پل کس علاقے میں زیر تعمیر ہیں، ان پر کام کرنے والا کوئی عینک والا جن تو نہیں ہے، جو بسیار کوششوں کے باوجود بھی کسی کو نظر نہیں آتا، بات یہ نہیں محترم ایم پی اے صاحب ! آپ کے بچھائے ہوئے ترقیاتی کاموں کا جال ہمیں نظر نہیں آتا، بلکہ بات وہ ہے جو کسی زمانے میں محترم عدم گونڈوی نے گاندھی جی کو خطاب کرکے فرمایا تھا، کہ

تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے
مگر یہ آنکڑے جھوٹے ہیں یہ دعویٰ کتابی ہے
ادھر جمہوریت کا ڈھول پیٹے جا رہے ہیں وہ
ادھر پردے کے پیچھے بربریت ہے، نوابی ہے
لگی ہے ہوڑ سی دیکھو امیری اور غریبی میں
یہ گاندھی واد کے ڈھانچے کی بنیادی خرابی ہے
تمہاری میز چاندی کی تمہارے جام سونے کے
یہاں جمن کے گھر میں آج بھی پھوٹی رکابی ہے


Print Friendly, PDF & Email