ڈی سی لوئر  چترال اور ایم پی اے چترال کا تنازعہ کیسے حل ہوا؟

سول سروس اور سول سرونٹ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر خاص وعام کی زبان پر رہتے ہیں۔  ان تمام کے لغوی معنی خدمت اور خدمت گار کے ہوتے ہیں۔ عوام کی خدمت کے لیے جو ادارے قائم کیے گئے ان کی افادیت کا عوام کو صحیح طور پر علم ہی نہیں کیونکہ عوامی خدمات کی ذمے داری جن سرکاری عہدیداروں کے سپرد کی جاتی رہی وہ خادم کے بجائے آقاؤں کا کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ آگہی سے بے بہرہ عوام ان آقاؤں کے آگے پیچھے دوڑتے پھر رہے ہیں۔

چترال میں اب تک ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہنے والے جہاں کہیں بھی ہوں، لیکن آج بھی وہ چترال اور اہل چترال کی تہذیب و شرافت کے گن گاتے ہیں۔وجہ اس کی یہی ہے کہ بلا وجہ کسی کے ساتھ الجھنا، لڑنا جھگڑنا روز ازل سے اب تک اہل چترال کا طور طریقہ نہیں رہا ہے۔

بدقسمتی سے حالیہ ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد نے اپنی تعیناتی کے بہت ہی قلیل عرصے میں ایک دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ اپنی امارت کا رعب جھاڑ کر اہل چترال کی عزت نفس کو مجروح کیا ہے۔

گزشتہ دنوں عوامی مفاد کی خاطر ایم پی اے چترال مولانا ہدایت الرحمان اور ڈپٹی کمشنر لوئر چترال نوید احمد کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ایک حصہ آڈیو کی صورت میں لیک ہونے پر کمشنر ملاکنڈ ریاض احمد مسعود اور ڈپٹی کمشنر چترال نے آسمان سر پر اٹھا کر سرکاری عہدے کا بے جا استعمال عمل میں لا کر دونوں ذاتی عناد پر اتر آئے، اسی ذاتی عناد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کئی حربے استعمال کئے۔ انہی ہتھکنڈوں میں ایم پی اے چترال سے ان کی گاڑی سمیت ان کی سیکیورٹی کو واپس لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا بھی شامل تھا۔

معاملہ بہ ایں جا رسید کہ کمشنر ملاکنڈ کے ایماء پر ایم پی اے چترال کے لیے چترال سے نکل کر پشاور آنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئ اور دونوں مل کر ایم پی اے چترال کو معافی مانگنے پر مجبور کرنے لگے جسے سینئر نائب امیر جمعیت علماء اسلام لوئر چترال قاری جمال عبدالناصر نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ، "ایم پی اے چترال نے عوامی مفاد کی خاطر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس پر وہ کسی بھی صورت معافی مانگنے والے نہیں ہیں ۔”

جب بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ڈپٹی کمشنر چترال نے اس تنازعے کے آڑ میں چترال کی عوام کے نام پر ریلیز ہونے والے 12 کروڑ کا فنڈ ہتھیانے کی کوشش کی تو ضلعی جماعت نے اس گیند کو صوبائی جماعت کے کوٹ میں ڈال دیا’ جسے وہ بخوبی انجام دے سکتی تھی’ اس ساری صورت حال میں ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ ایم پی اے چترال نے اس چپقلش میں پڑ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لینے کا فیصلہ کیا ‘ جسے شیخ الحدیث مولانا امان اللہ حقانی آف پشاور نے سختی سے مسترد کیا، اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ معافی مانگنے کی صورت میں صوبائی جماعت کا کوئی ایک کارکن بھی آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جس کے بعد معافی کا معاملہ یہیں رک گیا، اب معاملہ صوبائی جماعت تک پہنچ گئی’ صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن نے اس مسئلے کو فوری حل کرنے کا ٹاسک سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی کو سونپ دیا۔ اکرم خان درانی نے سب سے پہلے تحریک استحقاق صوبائی اسمبلی میں جمع کرائی، جس پر وزیر اعلی خیبر پختون خواہ نے فورا ایکشن لیتے ہوئے ایک عوامی نمائندے کے ساتھ وبا کے دنوں میں اس طرح کھلواڑ کو سخت نازیبا قرار دیتے ہوئے چیف سیکرٹری آف خیبر پختون خواہ کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی، جسے چیف سیکرٹری نے بخوبی حل کرنے کا وعدہ کیا۔ ادھر صوبائی جماعت نے عید کے بعد صوبائی سطح پر کمشنر ملاکنڈ اور ڈپٹی کمشنر چترال کے خلاف میدان میں آنے کا مصمم اعلان کر دیا تھا۔

ان تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آ چکا تھا ‘ اسی دوران اچانک کمشنر ملاکنڈ نے ایم پی اے چترال کو سوات پہنچ کر معاملہ سلجھانے کی درخواست کی، جسے امیر  ضلعی جماعت مولانا عبدلرحمان نے یکسر مسترد کر دیا، اس کے چند دن بعد گذشتہ دنوں کمشنر ملاکنڈ آچانک چترال پہنچ گئے اور ایم پی اے چترال سے معاملہ سلجھانے کی درخواست کی، جسے ضلعی جماعت نے قبول کرتے ہوئے معاملہ سدھارنے کا فیصلہ کیا۔

اور یوں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کہے ہوئے الفاظ واپس لے کر آئندہ اپنی تمام تر کوششیں عوامی مسائل کے حل کے لئے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔

اس تمام پراسس کے دوران ہونے والے گفت و شنید میں کہیں پر بھی ایک سیاسی جماعت کا کسی بیورو کریٹ کے آگے سر جھکانے کا تاثر نہیں ملتا۔ جسے یار دوست بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی سعئی لا حاصل کر رہے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email