ہاں! اہلِ چمن اب كى برس جاگتے رہنا!

2018 كا اليكشن قريب ہے، سياسى منظر نامے ميں گرما گرمى كى صورتحال ديدنى ہے۔ سنگِ بنيادوں پر سنگِ بنياد ركهنے اور افتتاحوں پر سياسى افتتاح كا ايك نہ تهمنے والا سلسلہ بهى  جارى ہے۔اس كى ايك ادنى مثال حاليہ دنوں خان صاحب كا دوره چترال ہے، جہاں اس نے پہلے سے افتتاح شده كاموں كا افتتاح، اور سمال ڈيموں كے لیے مختلف جگہيں متعين كر كے ان پر جلد از جلد كام شروع كرنے كا فيصلہ كيا ہے– خدا كرے كہ ان افتتاحوں كے شام كى كوئى سحر بهى ہو۔ كيونكہ 2013 ميں منتخب ہونے والے نمائندے عوام كى نظروں ميں اب تك مكمل طور پر ناكام ہو چكے ہيں۔ آمده اليكشن ميں چترالى قوم كن كو اپنا نمائنده چنتى ہے اور آئنده پانچ سال تك اپنی قسمت كا فيصلہ كرنے كے لیے كس كس كو تختِ شاہى تهما ديتى ہے اس كے لیے 2002 سے لے كر 2013 تك ضلع چترال پر تيار ہونے والى رپورٹ ہمارى آنكهيں كهول دينے كو كافى ہے كہ گياره سال كے طويل عرصے ميں مختلف جماعتوں نے ضلع چترال كے لیے كيا كيا بنيادى سہوليات فراہم كى۔؟ كيا آئنده ايسے نمائیدگان سے خير كى كوئى اميد ہے يا نہيں–؟ آئيےاس رپورٹ پر نظر دوڑاتے ہيں۔ چنانچہ 2002 ميں نئى حلقہ بنديوں كے بعد چترال ميں قومى اسمبلى كا حلقہ اين اے 32 تشكيل پايا۔ يہاں سے متحده مجلس عمل كے مولانا عبدالاكبر چترالى نے تقريبا 12000 ووٹوں سے مسلم ليگ ق كے افتخارالدين كو شكست دى۔ 2002 ميں صوبائى اسمبلى كى دونوں نشستوں سے بهى متحده مجلس عمل كے دو اميدوار كامياب قرار پائ يعنى 2002 ميں چترال ميں زمام اقتدار علماء كے پاس تها۔جو كسى نماياں كردار كے بغير اپنے اختتام كو پہنچا۔ اس سال ووٹنگ كى شرح ماضى كے مقابلے ميں كم ہونے كے باوجود 49 فيصد لوگوں نے ووٹ ڈالا

2008 ميں قومى اسمبلى كى نشست شہزاده محى الدين نے سخت مقابلے كے بعد آزاد اميدوار سردار محمد خان كو 2000 ووٹوں سے شكست دے كر ا پنے نام كرلى۔اسى سال صوبے كى ايك نشست پاكستان پيپلز پارٹى ،جبكہ دوسرى نشست مسلم ليگ ق كے حصے ميں آئى۔ ان كى ذمہ دارى كا يہ سورج بهى چترال كو كسى روشنى كى نويد سنائے بغير غروب ہوا۔ اس سال 45 فيصد لوگوں نے ووٹ ڈالے جبكہ 55 فيصد نے خاموشى اختيار كى۔ 2008 ميں ضلع كى آبادى تقريبا 3 لاكھ 18 ہزار 600 افراد پر مشتمل تهى۔ اسى سال رجسٹرڈ ووٹرز كى تعداد تقريبا 1 لاكھ 97000 تهى، مرد ووٹرز كى تعداد 1 لاكھ 8ہزار جبكہ خواتين ووٹرز كى تعداد 99 ہزار تهى، 2008 ميں قومى اسمبلى كے لیے منتخب ہونے والے مسلم ليگ ق كے رہنما شہزاده محى الدين كے ظاہر شده اثاثہ جات كى ماليت اگست 2008 ميں 23 كروڑ 73 ہزار تهى،جو تين سال بعد اگست 2011 ميں32 كروڑ 80 لاكھ كے اضافے كے ساتھ 54 كروڑ 53 لاكھ ہو چكى۔يہ خطير رقم عوام كى امانت تهى يا شہزاده صاحب كى اپنى تنخواه–؟ اس كا فيصلہ آپ پر ہے 2013 ميں آبادى كى تعداد بڑھ كر 4 لاكھ 31 ہزار ہو چكى ہے 2013 ميں رجسٹرد ووٹر كى تعداد 3 ہزار كے اضافے كے ساتھ 2 لاكھ ہوگئى، مرد ووٹرز كى تعداد 1لاكھ 18 ہزار، جبكہ خواتين ووٹرز كى تعداد ماضى كے مقابلے ميں كم ہو كر 83 ہزار ره گئى ہے 2013 كے انتخابات ميں كامياب ہونے والے نمائندے تا حال اپنى نشستوں پر برقرار،اور عوامى مقبوليت ميں صفر نظر آ رہے ہيں۔

بنيادى ضروريا ت: ضلع چترال ميں عوام كو دى جانے والى بنيادى ضروريات كا اگر جائزه ليا جائے تو رپورٹ كے مطابق پورے ضلع ميں صرف ايك سول اور تين تحصيل ہسپتال ہيں۔بنيادى صحت كے مراكز كى تعداد 21- اور ڈسپنسريز كى تعداد 22 ہے۔پورے ضلع ميں 56 ڈاكٹرز ہيں، جبكہ ڈاكٹرز كى 110 نشستيں خالى پڑى ہيں۔سركارى ہسپتالوں ميں كل 90 بستر ہيں، يعنى 5700 افراد كے لیے ايك بستر۔ اسى طرح تعليم كى اگر بات كى جائے تو پورے ضلع ميں دو يونيورسٹى كيمپس ہيں( ابھی ان دونوں کو ضم کرکے چترال یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے) اور تين كالجز موجود ہيں۔چترال ميں كل اسكول 793 اور اساتذه كى تعداد كم وبيش 3000 ہے۔يوں 54 بچوں كے لیے ايك استاد اور 210 بچوں كے لیے ايك اسكول موجود ہے۔

محترم قارئين: رپورٹ ملاحظہ كرنے كے بعد كم از كم گياره سالوں كے عوامى نمائندوں كى خدمات كا پول كهل گيا ہے ، اب ضرورت اس امر كى ہے كہ آئنده ہم نے كن كو اپنا نمائنده منتخب كرنا ہے اس كے لیے ابهى سے پارٹى ترجيحات كو الوداع كہہ كر فكر اور سوچ كى ضرورت ہے۔ ہميں پورى قوم سے يہى درخواست اور التماس ہے كہ۔۔۔ اہل چمن اب كى برس جاگتے رہنا!!

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے