صادق و امين كى تلاش!

مولانا فضل الرحمن اپنى تقريروں ميں اكثر يہ بات كہتے رہے كہ: ہمارے كچھ نادان دوست يہ كہتے ہوئے اور مطالبہ كرتے نظر آتے ہيں كہ جب قانون پر كوئى سنجيدگى سے عمل ہى نہيں كر رہا .تو ايسے قوانين كى ضرورت ہى كيا ہے- ؟ اس كا جواب مولانا الزامى طور پر تو يہ ديتے ہيں كہ جب كوئى بهى شخص قرآن كى تلاوت نہ كرے تو كيا ہم(نعوذ باللہ ) قرآن كو ہى ختم كرنے كا مطالبہ كريں گے،كہ چونكہ قرآن كى تلاوت نہيں ہورہى لہذا قرآن ہى نہيں ہونا چاہيئے..؟ اور حقيقى جواب ميں يہى فرماتے تهے كہ ايك وقت آئے گا كہ يہى قوانين ان كرپٹ لوگوں كے پاؤں كى زنجير بنيں گے…. اور جولائى كو ہم مولانا كى اس بات كا عملى مظاہره ديكھ چکے ہیں كہ ايك منتخب وزير اعظم كو ان ہى قوانين كى روشنى ميں سپريم كورٹ آف پاكستان نے نا اہل قرار دے ديا.اور يوں پانامہ كيس اپنا ايك طويل اور تاريخى سفر طے كرنے كے بعد ايك طرف غموں، دكهوں اور سسكيوں كى شام بانٹ كر، اور دوسرى طرف خوشيوں،مسرتوں اور نويدوں كى صبح بكهير كر اختتام پذير ہوا. ذاتى دشمنى اور عناد كو دور ركھ كر قوم و ملت كى خاطر كسى بهى طبقہ كے كرپٹ لوگوں كا بلا تفريق احتساب كرنے اور چاہنے والوں كو ڈهيروں داد اور خراج تحسين— اس پورے كيس كا منظر نامہ چونكہ صادق اور امين كے گرد ہى گهوم رہا تها اور آج نواز شريف كى نا اہلى كا سبب بهى يہى دو الفاظ بنے كہ ملك كا ايك منتخب وزير اعظم جب صادق اور امين نہيں رہے تو اس كليدى اور عظيم مسند پر بيٹهنے كا ان كے پاس كوئى جواز بهى نہيں رہا. اور اب اہل پاكستان كو كسى صادق و امين كى تلاش ہے.. اس لئے دل ميں داعيہ پيدا ہوا كہ ان دو لفظوں كو لغوى اور عرفى اعتبار سے سرسرى طور پر ديكها جائے كہ صادق اور امين كيسى صفتيں ہيں اور ان اوصاف كا حامل شخص كس طرح كا ہوتا ہے… چنانچہ! لغت ميں لفظ صادق عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1421ء کو "معراج العاشقین” میں تحریراً مستعمل ملتا ہے.

 جمع: صادِقِین معانی

  1.  جو سچ کہے، سچا، راست گو، پاک باطن۔ جيسے اس جملے ميں ” "جب لوگ جمع ہو گئے تو پہلے آپ نے اپنے صادق اور امین ہونے کا اقرار لیا۔”  ( 1963ء، محسن اعظم اور محسنین، 23 )
  2. جو نفس الامر کے مطابق ہو، خالص، اصل یا حقیقی، درست، بے سبب یہ نہیں سرگوشی ارباب فساد عشقِ صادق کا مرے فاش ہو راز کچھ آج، ( 1872ء، مظہرِ عشق، 60 )
  3.  ظاہر، آشکار۔ جو عیب پوش کی ہے وضع پردہ در کی کہاں کہ شام صادق و کاذب نہیں سحر کی طرح، ( 1854ء، گلستانِ سخن، 120 )

خدا تعالٰی کا ایک صفتی نام. معاشرے ميں كسى بهى با عزت عہدے پر بر اجماں ہونے والے شخص كا” صادق” ہونا كتنا اہم اور ضرورى ہے، اس كا اندازه اس واقعہ سے لگايا جا سكتا ہے كہ رحمت دو عالم صلى اللّہ عليہ وسلم كو جب نبوت ملى، تو آپ نے اپنى قوم كے سامنے سب سے پہلے يہى بات ركهى كہ: اے ميرى قوم ميں نے تمهارے بيچ اپنى زندگى كے چاليس سال گزارے، كيا اس عرصے ميں ميں نے تم سے كوئى جهوٹ بولا -؟ سب نے يك زبان ہو كر كہا كہ ہم نے ہميشہ آپ كو” صادق” ہى پايا ہے، تب رحمت دو عالم نے اپنى نبوت كا اعلان فرمايا كہ اللّہ تعالى نے انهيں نبوت كى عظيم دولت سے سرفراز فرمايا ہے، نبوت سے قبل بهى مكہ كے لوگ اللّہ كے رسول كو صادق( سچا) ہى كہہ كر پكارتے تهے. سيانے كہتے ہيں كہ” سانچ كو آنچ نہيں، سچائى ميں نقصان نہيں”

اَمِین عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً 1611ء کو "کلیات قلی قطب شاہ” میں مستعمل ملتا ہے

معانی

  1. جس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکے، امانت دار، معتبر۔ جيسے اس جملے ميں” "انجمن نے ان کو نہایت امین اور معتمد دیکھ کر اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔”، ( 1909ء، مکاتیب حالی، 98 معانی 1. وہ عہدہ دار جو کسی جائداد کی نگرانی انتظام اور مالگزاری وغیرہ وصول اور جمع کرتا ہے، (انگریزی) ٹِرَسْٹی۔ "اس نے …. قاضی فضیلت کو امین بنگالہ مقرر کیا تھا۔”، ( 1897ء، تاریخ ہندوستان، 330:3 )
  2.  عدالت دیوانی میں ڈگری کے مدعیوں کی جائداد قرق کرنے اور جانچنے والا عہدہ دار۔ "یہ امر مانع نہیں کہ امین عدالت گھر کے سامان کی قرقی کرنے آئے اور گھر میں کچھ نہ پائے۔”، ( 1944ء، ایرانی افسانے، 42 )
  3. محکمہ مال میں پیمائش کرنے اور مزورعہ زمین کی حدیں مقرر کرنے اور ان کا نقشہ بنانے والا عہدہ دار۔ "پٹواری یا امین اول نقشہ پنسل سے کھینچے۔”، ( 1876ء، مصباح المساحت، 23:2 )
  4. پیغمبر اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب جو نبوت سے قبل لوگوں کی امانتیں محفوظ رکھنے کی بنا پر آپ کو عوام کی طرف سے ملا تھا۔ "ارے یہ تو امین ہے امین ہے محمد ہے۔”، ( 1958ء، آزاد (ابوالکلام)رسول عربی، 17 )
  5.  مشہور فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کا لقب جو خدا کا پیغام بے کم و کاست نبی کے پاس پہنچانے پر مامور تھے۔ نزدیک رسول خاص عربی آتے تھے امیں ہو دحیہ کلبی، ( 1874ء، جامع المظاہر منتخب الجواہر، 51 )
  6. فرقۂ محمودیہ وحدانیہ کے نامور علما کا لقب۔ "یہ فرقۂ محمودیہ وحدانیہ اب بھی موجود ہے اس کے سرکردہ علماء کو امین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔”، ( 1972ء، فرقے اور مسالک، 255 ) حديث مباركہ ميں اللّہ كے رسول نے امين نہ ہونے كو ناقص الايمان قرار ديا ہے، كہ جس ميں امانت نہيں اس ميں ايمان نہيں.. صاحب ديانت اور امانت شخص كو تو اپنوں كے علاوه غير بهى چاہتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ مخالفين بهى اپنى امانتيں اللّہ كے رسول كے پاس ركهوايا كرتے تهے. الغرض آرٹيكل 62-63 كے تحت كسى بهى عہديدار كو كوئى بهى عہده سپرد كرنے سے پہلے اگر اہل وطن اور ملك و ملت كے وفادار لوگ اس شخص كى وصف صداقت و امانت كو اس ترازو ميں تول كر پهر ان كو كسى مسند پر بٹهائے تو كرپشن كى ماں ہميشہ كے لئے مر سكتى ہے.

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے