خليفہ چہارم كى شہادت اور كرائے كا قاتل!

جنگِ نہروان ميں شيرِ خدا كے ہاتهوں شكست كهانے كے بعد دنيا كے سامنے اس شكست فاش كو چهپانے كے لئے كوفہ شہر ميں ايك بار پهر خارجى ٹولہ سازشوں كا جال بُننے ميں مصروف تها، برك بن عبداللّہ، عمرو بن بكر اور عبدالرحمن بن ملجم نے ايك جامع مسجد ميں جمع ہو كر جنگِ نہروان كے مقتولين كو خراجِ تحسين پيش كيا، (جو على المرتضى كے ہاتهوں اس جنگ ميں اپنے انجام كو پہنچ چكے تهے،جن كى تعداد دس تهى) ان كے حق ميں تعريفوں كے پل باندهے،دعائے مغفرت مانگى، اور نظامِ خلافت كى قيادت سے ان مقتولين كا بدلہ كسى بهى صورت لينے كا عزمِ مصمم كر ليا، ابن ملجم نے مزيد كہا كہ وه تو اللہ كے ہاں اجر پاگئے، بعد والوں كو حضرت على، امير معاويہ اور عمرو بن عاص سے نجات دلانے كے لئے ان كا كام تمام كرنا ہوگا. ابن ملجم چونكہ ايك خارجى عورت قطامہ كے عشق ميں اپنا ہوش و حواس كهو بيٹها تها، جنگِ نہروان كے مقتولين ميں” قطامہ” كا باپ اور بهائى بهى شامل تها، ابن ملجم نے جب اسے نكاح كا پيعام ديا تو قطامہ نے اس شرط پر نكاح كرنے كو كہا تها كہ مہر ميں ان كو على كا سر چاہئے، جسے ابن ملجم نے منظور كر ليا.يہى وجہ ہے كہ اپنے ساتهيوں سے مشوره لينے اور منصوبہ مكمل كرنے كے بعد ابن ملجم نے كہا كہ على كا كام ميں تمام كردوں گا، اپنے اس ناپاك منصوبے كو عملى جامہ پہنانے كے لئے 17 رمضان كو كرائے كا يہ قاتل مسجدِ كوفہ كى گلى ميں خليفہ چہارم دامادِ رسول على المرتضى كى گهات ميں بيٹھ گيا، جيسے شيرِ خدا نمازِ فجر كيلئے مسجد كى طرف نكلے، راستے ميں گهات لگائے قاتل نے آپ پر تلوار سے وار كيا،جس سے آپ رضى اللّہ عنہ شديد زخمى ہوگئے- ملزم كو گرفتار كر ليا گيا، آپ رضى اللّہ عنہ كو گهر لايا گيا جہاں وه زخموں كى تاب نہ لا كر جامِ شہادت نوش كيا. يومِ شہادت! كيا اكيس رمضان المبارك يومِ شہادتِ على ہے-؟ مولانا ابوالحسن على ندوى سيرتِ على پر اپنى كتاب” المرتضى” ميں فرماتے ہيں كہ صحيح روايت كے بموجب حضرت على نے 17 رمضان كو صبح صادق كے وقت سن 40 ھ ميں سفر آخرت اختيار كيا، طبقات ابن سعد كى عبارت كے مطابق آپ 19 رمضان كو جامِ شہادت نوش فرما گئے، علامہ سيوطى نے تاريخ الخلفاء ميں 17 تاريخ كو زخمى ہو كر جمعہ اور ہفتہ كى رات بقيدِ حيات رہنے كى روايت ذكى كى ہے، اس قول كے مطابق اتوار كى شب آپ كى روح بارگاهِ قدس كى طرف پرواز كر گئى،اس سے يہ بهى معلوم ہوا كہ سن 40ہجرى رمضان كى 17 تارخ كو جمعرات كا دن تها-لہذا اس قول كے مطابق آپ كى شہادت 20 رمضان كو ہوئى. جبكہ طبرى نے اس سلسلے كى تين روايتيں ذكر كى ہے، لہذا 21 رمضان المبارك كو حتمى طور پر يومِ شہادتِ على منانا بهى قرينِ انصاف نہيں ہے- البتہ اس بات پر تمام روايات متفق ہيں كہ آپ كى شہادت رمضان اور 40 ہجرى ميں 63 برس كى عمر ميں ہوئى- حضرت حسن رضى اللّہ عنہ نے نمازِ جنازه پڑهائى اور كوفہ كے دارالاماره ميں آپ دفنا ديے گئے. علامہ سيوطى نے آپ كى لاش مدينہ منتقل كرنے اور راستے ميں اونٹنى كے گم ہونے كى خبر دى ہے، ليكن علامہ ندوى نے” البدايہ والنہايہ كے حوالے سے ان روايات كو مشتبہ قرار ديا ہے جن پر اعتبار نہيں كيا جا سكتا.. رضى اللّہ عنہ….

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے