عوامی سوچ بدل چکی ہے !

پارٹیوں کو ان کی سابقہ کارکردگیوں کی بنیاد پر پرکھا جا رہا ہے، آمدہ 2018 ء کے عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی سابقہ کارکردگی الیکشن میں ان کی کامیابی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے، عوام کی مجموعی سوچ کا اگر اندازہ لگایا جائے، تو یہ بات بعید از قیاس بالکل بھی نہیں، کہ عوام کی سوچ سیاسی پارٹیوں کو پرکھنے کے سلسلے میں پہلے سے کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اس سے پہلے الیکشن کے مواقع پر لوگ جماعت، نظریہ، مسلک، مذہب اور مشرب کو اپنے عوامی، علاقائی ،معاشرتی اور انسانی تمام ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر ووٹ دینے آتے تھے۔ اس بات سے ان کو کوئی سروکار نہیں تھا کہ مذکورہ جماعت بر سر اقتدار آکر ان کے علاقے، عوام اور قوم کے لیے کیا خدمات انجام دے گی؟ انہیں پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی سڑکوں کی مرمت اور توسیع، گرے ہوئے بوسیدہ پلوں کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے جیسے اہم کاموں سے کوئی سروکار نہیں تھا، انہوں نے مسلم لیگ کو ماضی میں ووٹ دے کر جتوایا، صرف اس بنیاد پر کہ ان کے باپ،دادا مسلم لیگ کے حامی تھے، یا وہ خود مسلم لیگ کے کارکن ہیں، پیپلز پارٹی کا دامن بھی ووٹوں سے اس لیے بھر دیا کہ ان کی وابستگی اس جماعت کے ساتھ ہے، جماعت اسلامی کو ووٹ دیا، صرف اس بناء پر کہ یہ ایک اسلامی جماعت ہے، جمعیت علمائے اسلام کو اس نیت سے ووٹ دیئے کہ شاید قیامت کے دن بیڑہ پار ہو جائے اور قیامت میں اس نفسا نفسی کے عالم میں شاید کاغذ کا یہ ٹکڑا روشنی اور امید کی ایک کرن بن کر سامنے آئے اور اب کی بار تا حد نظر یہ تمام اگر نہ بھی ہوتو اکثر خوش فہمیاں اور توہمات تقریباً دم توڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اب عوام کی سوچ کچھ بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے، اب وہ پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کو ترجیح دینے لگے ہیں، اب وہ مسلک، نظریہ اور پارٹی نہیں دیکھتے، بلکہ کسی بھی جماعت کو ان کی سابقہ عوامی خدمات کے ترازو میں تولتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس تناظر میں سیاسی جماعتوں ، تنظیموں اور پارٹیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خدمات کے آئینے میں سامنے آئیں، اور عوام سے ووٹ کا مطالبہ کریں، عوام کو اس سوچ سے ہم کنار کرنے میں بہت اسباب کا ہاتھ ہے، ان میں سے ایک اہم کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے، کہ سوشل میڈیا کے مثبت دانشور، لکھاری، تجزیہ نگار، اور مبصرین نے عوام کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کی باتوں اور ان کی تحریروں نے عوام میں سوئے شعور کو بیدار کیا اور اپنے حقوق کے لیے جمہوری نظام حکومت میں آواز اٹھانے کے جذبے کو مہمیز دیا۔ عوام میں شعور کی بیداری اور اپنے انسانی حقوق کے لیے لڑنا سکھانے کا ایک گونہ کریڈٹ اگر عمران خان کو بھی دیا جائے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ خود تحریک انصاف میں بھی ان کی باتوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا، بہرحال 2018 ء کا سیاسی منظر نامہ پچھلے کئی منظر ناموں سے اس وجہ سے بھی مختلف نظر آ رہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے بعد تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا ہے، لہٰذا الیکشن میں ان دونوں حریف جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلوں کے امکان نے بھی سیاسی ماحول میں ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ دوسری طرف متحدہ مجلس عمل میں شامل مذہبی جماعتیں عوام کو اپنی گزشتہ کارکردگی سے روشناس کرانے میں بھی کافی کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 10 اکتوبر 2002 ء کے الیکشن میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بننے والی ایم ایم اے کی حکومت نے چند وہ خدمات بھی انجام دی تھی جو اس سے پہلے 55 سالہ دور حکومت میں بھی ایسی خدمات کا ذکر نہیں ملتا۔ سر فہرست ان میں یہ ہے متحدہ مجلس عمل کی سابقہ دور حکومت میں شریعت بل کی منظوری دی گئی جو پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی کے آگے بے بس ہو کر شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ جیلوں میں فیملی کوارٹر بنائے گئے جہاں قیدی اپنی بیوی اور بچوں سمیت تین دن رہ سکتا تھا۔ وی آئی پی کلچر کا عملاً خاتمہ کیا گیا تھا، شراب پر پابندی عائد کردی گئی تھی، میٹرک تک کی تعلیم اور کتابیں مفت کی گئیں، صوبائی سطح کے امتحانات کے مقابلوں میں اردو کا آپشن دیا گیا، اسی دور میں اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا، زراعت کی ترقی کے لیے ٹاسک فورس قائم کی گئی، محکمۂ مال میں اصلاحات کی گئی، قیام امن کو یقینی بنانے، اور فحاشی عریانی کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کیے گئے، خواتین کے لیے الگ کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں آیا، ہسپتالوں میں جدید اور طبی سہولیات فراہم کی گئیں، مہلک مرض میں مبتلا لوگوں کے لیے مفت علاج کا اعلان کیا گیا، 45 ہزار اساتذہ میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیے گئے، شریعت کونسل کا قیام عمل میں آیا، اس کے علاوہ اور بہت کچھ، البتہ یہ سب کچھ عوامی نظروں سے اب بھی اوجھل ہیں، لیکن اب کی بار ان تمام اصلاحات کے علاوہ عوام کی چند اور بنیادی ضروریات کی طرف خصوصا توجہ درکار ہوگی، جن میں بجلی، گیس، پانی، کی فراہمی، پولیس کے نظام میں مزید اصلاحات سر فہرست ہیں، یہ وہ بنیادی کام ہیں، جن کی طرف توجہ دے کر کوئی بھی پارٹی، یا جماعت عوام کی آنکھوں کا تارا بن سکتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email