فرقہ واریت کی بدبو سے کوسوں دورمعاشرہ !

سعودی عرب کے ریاض شہر سے تقریبا 80 کلو میٹر کے فاصلے پر ” نادی جُبیلہ” کے نام سے  ایک چھوٹی سی خوبصورت وادی ہے، یہ وادی، بنو حنیفہ کا مسکن رہی ہے، اسی نادی جبیلہ کے ایک حصے کا نام” عقربا” ہے ، جہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت خالد بن ولید اور مسیلمہ کذاب کی فوج کا ایک تاریخی معرکہ جنگ یمامہ کے نام سے رونما ہوا تھا، جہاں کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش فرمایا، ان ہی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی زید بن خطاب بھی تھے، جو اس معرکے میں مرتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے، وادی کے عین درمیان” مقبرۃ شہداء الیمامہ” کے نام سے جنگِ یمامہ میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کا مقبرہ ہے، جو کہ طویل رقبے پر پھیلا ہوا ہے، قبرستان کو دونوں اطراف سے چھوڑ کر درمیان میں پکی ڈبل روڈ بنی ہوئی ہے، جبکہ روڈ کے آر پار شہداء کی قبریں آج بھی موجود ہیں، اس وادی سے کچھ ہی فاصلے پر وادی عُیینہ کے نام سے بھی چند ہی آبادیوں پر مشتمل چھوٹی سی خوبصورت وادی ہے، مسیلمہ کذاب کی پیدائش اسی وادی میں ہوئی تھی، مولانا مودودی رحمہ اللہ کا سفر نامہ ارض القرآن کو مرتب کرنے والے محمد عاصم الحداد نے بھی رودادِ سفر میں ان علاقوں کا ذکر کیا ہے، دو مرتبہ پیدل کچھ دوستوں کے ساتھ وادی جبیلہ سے عیینہ تک گئے، اور پھر پیدل ہی چل کر جبیلہ تک واپس آئے، وادی جبیلہ محدود عرب آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود کئی مساجد میں گھری ہوئی ہے، اس وادی میں چھ بڑی بڑی مسجدیں ہیں، جن میں دو جامع مساجد شامل ہیں، نمازیوں کی اکثر تعداد خارجی لوگوں کی ہے، جن میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، فلپائن،مصر، یمن،اور نیپال کے باشندے شامل ہیں، علاوہ ازیں کچی مٹی اور گارے سے بنی ہوئی ایک چھوٹی سی مسجد صحابہ کرام کی یاد گار کے طور پر بھی موجود ہے، یہاں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ نماز کے مقررہ وقت پر اگر امام مسجد نہ بھی آئے، تو نمازیوں میں سے کوئی بھی آگے بڑھ کر بلا جھجک اور بلا خوف نماز اپنی مسلک کے مطابق پڑھا سکتا ہے، جس پر دوسرے نمازیوں اور خود عربوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا، ان ہی مساجد میں سے ایک مسجد میں کافی عرصے تک مجھے بھی بحیثیت امام لوگوں کو نماز پڑھانے کا موقع ملا، اور حنفی مسلک کے مطابق ہی لوگوں کو نماز پڑھاتا رہا، میں آمین آہستہ کہتا، مقتدی اونچی آواز میں آمین کہتے، میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتا، لیکن مقتدی رافع الیدین کرتے تھے، الغرض کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ امام صاحب، آپ نے آمین بلند آواز سے نہیں کہی، اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے رفع الیدین نہیں کیا، البتہ ایک مرتبہ ایک عرب نے کہا کہ شیخ رفع الیدین لازم ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے،آئندہ ایسا ہی کریں گے، بعد ازاں میں نے یہ بات وہاں کے مقیم امام مسجد کو بتائی، کہ فلاں شخص یوں  کہہ رہا تھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسلام کے طریقے ہیں اور دونوں پر عمل کرنے والے مسلمان ہیں، لہذا آپ کو جو آسانی ہو وہی کرے، کسی کو آپ کو پابند کرنے کا کوئی حق نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ماحول فرقہ وارانہ سوچ سے پاک اور فرقہ واریت کی بدبو سے کوسوں دور ہے، اسی طرح اکثر مساجد کے ائمہ حضرات اونچی آواز میں آمین کہتے ہیں، اور اس کے ساتھ رفع الیدین بھی کرتے ہیں، ایشیائی ممالک جو کہ اکثر حنفی المسلک ہیں، ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں، اور ان کے ساتھ اچھے مراسم بھی ہیں، اللہ کرے یہی فضا ہر جگہ قائم ہو۔

Print Friendly, PDF & Email