شیخ چلی کی عمارت اور ہمارا ضلع

شیخ چلی خیالی پلاؤ پکانے والا باورچی تھا، کسی شخص کو ایک گھڑا تیل کا گھر لے جانا تھا، شیخ چلی پر ان کی نظر پڑی، کہا، چل ہمارا تیل کا گھڑا تو ذرا گھر تک پہنچا دو، دو پیسے بھی ملیں گے۔ شیخ جی نے منظور کر لیا اور گھڑا سر پر اٹھا کر چل پڑے، اب آپ نے دل میں خیالی تجارت کا منصوبہ گانٹھنا شروع کیا، کہ آج ہمیں دو پیسے ملیں گے، اس سے کوئی تجارت شروع کرنی چاہیے، پھر سوچا کہ کونسی تجارت شروع کروں، کافی غور و خوض کے بعد یہ طے کیا کہ ان دو پیسوں کا انڈا خریدوں گا۔ پھر کسی مرغی والے کی خوشامد کر کے یہ انڈے مرغی کے نیچے رکھ دوں گا، ان میں سے دو بچے نکلیں گے،ایک مرغا،ایک مرغی، پھر وہ بہت سے انڈے دیں گے، اور ان کے کئی بچے ہوں گے، تو ان کو بیچ کر بکریاں خریدوں گا، پھر بکریاں بیچ کر گائے،اسی طرح گھوڑے، پھر گھوڑے بھی بیچ کر ایک بڑا سا محل تیار کر لوں گا۔پھر کسی وزیر زادی سے شادی کر لوں گا، پھر بچے ہوں گے، بچے جب بڑے ہو جائیں گے تو اندر سے ہمیں بلانے آئیں گے، کہ ابا جان چلو۔ اماں جان نے بلایا ہے، ہم اسے ڈانٹ پلائیں گے کہ ہشت، ہم نہیں چلتے، ہمیں فرصت نہیں ہے، ہشت کہتے ہوئے سر ہل گیا اور سارا تیل زمین پر پھیل گیا، مالک غصے میں کہنے لگے کہ ارے کمبخت ! یہ تم نے کیا کیا میرے ساتھ شیخ نے کہا ارے میاں جاؤ۔ ذرا سے تیل کے واسطے آسمان سر پہ اٹھایا ہے تم نے۔ میرے نقصان کا تمہیں اندازا نہیں ہے کہ بنی بنائی عمارت لمحوں میں زمین بوس ہو گئی، سارا کنبہ،تجارت غارت ہو گئی، بیوی بچے سب ختم ہو گئے، یہی حال ہم اہلیانِ چترال کا ہے، جب ہمارے پاس ایک ضلع، دو ایم پی ایز، اور ایک ایم این اے ہوا کرتے تھے، تو ہم نے چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا سوچا، پھر ہم نے سوچا کہ جب چترال دو ضلعوں میں تقسیم ہو گا، ایک کا نام اپر چترال، اور دوسرے کا لوئر چترال ہو گا، بعد ازاں یقینی طور پر ہر ضلع کا اپنا ایک ہیڈ کوارٹر ہوگا، جہاں متعلقہ ضلع کے افراد آسانی سے اپنی ضروریات نمٹا سکیں گے، ان کے سب کام آسانی سے سر انجام پائیں گے، روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں گے، نسلِ نو کے واسطے ملازمتوں کی بارش ہو گی، اس پر مستزاد یہ کہ ایک اضافی سیٹ بھی ملے گی۔ الغرض وہ تمام سہولیات میسر ہوں گے جو کسی بھی انسانی معاشرے کے واسطے ضروری ہیں۔ ہم نے مل کر یہ خیالی ضلع یہاں تک بنایا تھا کہ اچانک دھڑام سے ایک پہاڑ ہم پر گرتا ہوا محسوس ہوا۔ ، ہم ہوش میں آئے تو کسی خبر دینے والے نے خبر دی، کہ چترال میں ایم پی ایز کی دو سیٹوں میں ایک کا مزید اضافہ کرنے کے بجائے ایک سیٹ مزید کم کردی گئی ہے، پھر کیا تھا آپس کے تمام اختلافات کو بھلا کر سیاسی جماعتیں یک زبان ہو کر میدان میں آگئیں۔ اور پھر "مرتا کیا نہ کرتا” کے مصداق چترال کی تمام سیاسی جماعتیں اس حکومتی فیصلے کو ظالمانہ فیصلہ قرار دے کر ہنوز اس اقدام کے خلاف بر سر احتجاج ہیں، گزشتہ دنوں پی ٹی آئی چترال کے زیر اہتمام بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں چترال کی تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین نے شرکت کرکے، فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں حکومت کے خلاف احتجاج، 2018 کے الیکشن کا بائیکاٹ،اور صوبائی اور قومی عہدوں سے بھی مستعفی ہونے کا ٹاسک دیا ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ ان کے اس فیصلے میں کتنی جان ہے۔ دوسری طرف ایم این اے اور موجودہ ایم پی ایز کا پانچ سالہ رویہ دیکھ کر عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب اہل چترال پانچ سال تک بغیر بجلی کے گزارا کر سکتے ہیں، تو ایک ایم پی اے کم ہونے کی صورت میں بھی پہلے سے دودھ اور شہد کی جاری نہروں کی روانی میں کوئی خاطر خواہ کمی محسوس نہیں ہوگی۔ یہ اہل چترال کے، اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے نا امیدی کے آخری الفاظ ہیں۔ بہرحال دنیا پہ کھلا تیرا وعدے سے مکر جانا، کے مصداق عوامی نمائندوں کی خدمات کے غباروں سے ہوا نکل چکی ہے،اب نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا کوئی خرد مندی نہیں۔ شیخ چلی کی عمارت کا تو ستیاناس ہو ہی گیا، لیکن ہمیں اپنے خیالی ضلع کو حقیقت کی صورت دینے اور گم گشتہ سیٹ واپس لانے کے لیے ماضی کی تمام چپقلشیں اور اختلافات کو بھلا کر ایک پیچ پر آنے کی اشد ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email